یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ ملک کے اعلیٰ ترین مناصب پر براجمان مقتدر ہستیوں کی طرف سے قوم کی محرومیوں کو دور کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ کر گزرنے کی بجائے چھم سے حزب اختلاف کے لئے مخصوص فکری میدان میں آدھمکنے کی کوشش کیوں جاری ہے اور یہی نہیں بلکہ اس فکری میدان کے درختوں کی شاخوں پر اسی طرح چہچہانے کی سعی کی جا رہی ہے۔ جو حزب اختلاف ہی کا طرہ امتیاز ہے۔ ہو سکتا ہے اس طرز عمل کی روح میں یہ جذبہ کارفرما ہو کہ اس طرز عمل سے عوام کو اس حقیقت کا پوری طرح احساس دلا دیا جائے کہ اہل اقتدار کو بھی صوبے یا ملک کے کروڑوں محروم انسانوں کے ان حقیقی اور انتہائی سنگین مسائل کا بھی پوری طرح ادراک ہے۔ جن مسائل نے ان لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا رکھا ہے۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے طرز فکر کو اپنانے والے حکومتی اعلیٰ مناصب رکھنے والے افراد کی اس دوڑ میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سب سے آگے ہیں اور کچھ عرصہ سے وہ بڑھ چڑھ کر اس قسم کی بولیاں بولنے میں مگن ہیں جو اپوزیشن ارکان ہی کا حصہ ہوتی ہیں۔صوبے اور ملک کے کروڑوں عوام پینے کے صاف پانی سے محروم چلے آرہے ہیں اور یہ تکلیف دہ حقیقت کوئی ایسی بات نہیں کہ جس سے ملک کا باشعور طبقہ بالخصوص اشرافیہ کے نمائندے اس بات سے واقف نہ ہوں‘ ان بزرجمہروں کا کام کروڑوں عوام کو اس قسم کی افسوسناک صورت حال سے نہ صرف نکالنے کے لئے عملی اقدامات کرنے کی تدبیریں کرنا ہی نہیں بلکہ اس مقصد کے حصول کی خاطر پہلی فرصت میں ترجیحی بنیادوں پر اقدامات اٹھانا بھی ہے۔ آج کے دور میں کسی ملک کے شہریوں کو پینے کا صاف پانی مہیا نہ ہونا وہاں کے حکمرانوں کے لئے ڈوب مرنے کا مقام قرار دیا جا سکتا ہے مگر جس ملک کے ایوان اقتدار کے مکینوں نے اپنے دارالحکومت یا صو بائی صدر مقامات کے پانیوں کو کبھی چکھا تک نہ ہو بلکہ وہ لوگ سوئٹزر لینڈ اور اس جیسے دیگر شہروں اور ممالک سے درآمدی منرل واٹر ہی سے رشتہ جوڑ کر رکھتے ہوں انہیں ملک کے کروڑوں محروم شہریوں کے صاف پانی ایسے سنگین مسئلے کا احساس کیسے ہو سکتا ہے۔ وہ صرف اس مسئلے کی سنگینی کا تذکرہ ہی کرنے پر ہی اکتفا کریں گے۔ جیساکہ وزیراعلیٰ پنجاب نے حال ہی میں اپوزیشن کی شاخوں پر چہچہانے والے پرندوں کی طرح کہا ہے کہ ’’صوبے کی پانچ کروڑ دیہی آبادی کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی ایک بڑا چیلنج ہے۔ شہروں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے اپنے شہریوں کو بنیادی حقوق دینے ہی میں کسی ریاست کی بقاء مضمر ہے۔‘سوال یہ ہے کہ حزب اقتدار کی شاخ پر بیٹھ کر ایسے سنگین ترین عوامی مشکلات و مصائب کا اس وقت تذکرہ کرنے کا مقصد کیا؟ جس کے تدارک کی طرف حکومت کی طرف سے گزشتہ آٹھ برسوں کے دوران ایک بھی قدم آگے نہیں بڑھایا گیا؟گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ پنجاب نے پنجاب ایجوکیشنل انڈومنٹ فنڈ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اگرچہ اپنی طرف سے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا مگر طرز تکلم اپوزیشن ہی سا لگا۔ انہوں نے کہا کہ اعلیٰ تعلیم صرف اشرافیہ کی میراث ہی نہیں اس پر پاکستان کے ہر بچے کا حق ہے گزشتہ 70 برسوں میں پاکستان کے وسائل کو بے دردی سے لوٹا گیا وسائل کی اس لوٹ مار سے ملک میں غربت بڑھی ہسپتالوں‘ سکولوں اور ملکی اداروں میں اندھیرے چھا گئے۔ اشرافیہ نے پاکستان کا معاشی قتل کیا‘ قابل ذکر بات تو یہ ہے کہ طبقہ اشرافیہ کی ایک مقتدر اور انتہائی بااختیار ہستی کی طرف سے اشرافیہ پر اس طرح کی نشتر زنی سمجھ سے بالاتر ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب غالباً یہ حقیقت فراموش کر گئے کہ اس ستربرسوں کے دوران میں ان کی جماعت مسلم لیگ (ن) دو عشروں سے زائد عرصہ تک وفاق اور ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں برسراقتدار رہی۔ اور جن ستر برسوں کے دوران ملکی وسائل کو بے دردی سے لوٹنے کا دعویٰ صو بائی وزیراعلیٰ نے کیا اس عرصے میں یہ دو عشرے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے بھی انہوں نے شامل کئے ہیں۔ انہوں نے جوش خطابت میں فرمایا کہ ستر برسوں کی لوٹ مار کے نتیجے میں نہ صرف ملک میں غربت بڑھی بلکہ ہسپتالوں‘ سکولوں اور ملکی اداروں میں اندھیرے چھا گئے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہسپتالوں اور سکولوں میں چھائے ایسے اندھیروں کو دور کرنے کے لئے حالیہ آٹھ برسوں کے دوران صدق دلی کے لئے ایسے سکولوں کو سینکڑوں کی تعداد میں بند نہ کیا جاتا جہاں اشرافیہ نہیں بلکہ محروم طبقہ سے تعلق رکھنے والے مفلوک الحال‘ فاقہ کش‘ غریب خاندانوں کے بچے اور بچیاں تعلیم پاتے تھے۔ پنجاب میں حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے ایسے اقدامات ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے کہ جس کے نتیجے میں اس صوبے کے کروڑوں خاندانوں کے بچوں کو معیاری تعلیمی سہولتوں سے آراستہ تعلیمی ادارے مہیا ہوں‘ بلکہ یہ قابل ذکر اور ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اشرافیہ کے جس طبقے سے ارباب اقتدار تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے بچے تو حکومت کی سرپرستی میں چلنے والے ملک کے چند اعلیٰ تعلیمی اداروں سمیت بیرونی دنیا کے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں تحصیل علم کے لئے بھیجے جاتے ہیں اگر ایجوکیشنل انڈومنٹ فنڈ کو ملک بھر کے مفلوک الحال اور قلاش طبقے کے کروڑوں بچوں کی ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم کے سکولوں کے قیام کے لئے مخصوص کرنے کا منصوبہ بنا کر عمل کیا جاتا تو قوم و ملک کے حق میں اس کے مفید اور دیر پا نتائج حاصل ہوتے۔ صوبے کے سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت زار پر ہر پاکستانی کا دل کڑھتا ہے مگر اعلیٰ ترین مناصب پر براجمان حکومتی نمائندے اپوزیشن طرز فکر کی بولیاں بول کر ہی مقصد براری کی راہیں ڈھونڈنے میں مصروف ہیں۔
صوبے میں سرکاری شفا خانوں میں پائے جانے والے اندھیروں کو بھی گزشتہ آٹھ برسوں میں دور کرنے کے لئے سوچا تک نہیں گیا اگر ایسا ہوتا تو ہسپتالوں میں ایک ایک بستر پر تین تین مریضوں کو لٹا کر ادویات کے بغیر لاعلاج نہ رکھا جاتا۔ نوبت تو ان آٹھ برسوں کے دوران اس حد تک آن چکی ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں ضرورت کے مطابق ڈاکٹر مہیا نہیں کئے جا رہے۔ تعلیم اور صحت ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور محض خوشنما الفاظ سے مزین اعلانات کرنے سے شہریوں کو ایسی سہولتیں فراہم نہیں ہوا کرتیں اس کے لئے ارباب اقتدار کو نظر آنے والے اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ پنجاب کے ہسپتالوں اور تعلیمی شعبے میں حکومت کی طرف سے کسی ایسے جامع منصوبے کا سراغ نہیں ملتا کہ جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ حکمران کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہے۔ ہسپتالوں میں عام لوگوں کو علاج معالجے اور ادویات کی سہولتیں عنقا ہوں کروڑوں بچوں کے لئے ضرورت کے مطابق ڈھنگ کے تعلیمی اداروں کا فقدان ہو تو ایسے میں حکمرانوں کے دعوے محض سراب نہیں تو انہیں کیا نام دیا جا سکتا ہے۔