شہر میں سب سے پہلا ساتوں دن اور چوبیس گھنٹے (7/24) کھلارہنے والا واحد چائے خانہ عین چوک کے وسط میں تھا۔سرخ وسپید اور صحت مند دکاندار شریف بٹ نے اس کی ابتداء کی جو ان کی وفات تک جاری رہا۔یہاں سے فیصل آباد۔سرگودھا ۔چنیوٹ اور حافظ آبادجانے والی بسوں کے مسافر کچھ دیر ٹھہرتے اور چائے وغیرہ پی کر تازہ دم ہوتے ۔کھانے وغیرہ کا کوئی انتظام نہ تھا۔مسافر زیادہ تر دیہاتی ہوتے جوبھوک مٹانے کیلئے ایک گلاس پانی کے ساتھ درجن بھر کیک رس کھاجاتے پھر پرچ (پلیٹ)میں چائے ڈال کرپھونکیں مارکراسے ٹھنڈا کرتے رہتے۔ادھر بس کے کنڈیکٹر آواز لگاتا کہ چلو بھائی چلو توایک ہی سانس میں ساری چائے معدے میں انڈیل کربس میں سوار ہوجاتے۔دیہاتی سادگی کے یہ مناظربڑے دلچسپ ہوتے۔حافظ آباد روڈ سے جو سڑک چوک نیائیںآکر ملتی اس کے شروع میں اہل تشیع کے بے بدل عالم دین شرافت وپارسائی اور علم وفضل کے سرتاج مفتی جعفر حسین صاحب کے نقش پاپائے جاتے تھے۔بڑے وسیع القلب اور وسیع المشرب انسان تھے۔اہلحدیث مکتب فکر کے سرخیل مولوی اسماعیل صاحب سے گہری دوستی تھی جس کی بنیاد صرف علم اور جستجو پراستوار تھی۔دونوں ہی اپنے دور کے ولی اللہ تھے (اللہ ان کی قبروں کو ہمیشہ منوررکھے)اسی شاہراہ پر عزیز ذوالفقار صاحب کا دولت خانہ بھی تھا۔جوشہر کے ایک بڑے صعنت کار اور رئیس تھے ۔قلم سے بھی تعلق جوڑے رکھا۔ ماہنامہ "حکائت"میں مزاح لکھتے تھے۔خود بھی بڑے بذلہ بیخ لطیفہ گو اور حاضر جو اب تھے۔ہمارے محترم رفیق تارڑ صاحب کے بے تکلف دوستوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔1970ء کے انتخابی معرکے میں مسلم لیگ (کونسل) کے ٹکٹ پر شہری نشست پر قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا۔غلام دستگیر خاں ان کے ساتھ صوبائی اسمبلی کے امیدوار تھے۔مگرپیپلز پارٹی کے ووٹوں کی آندھی اور طوفان میں دونوں بہہ گئے۔چھیالیس سال بعد پیپلز پارٹی اسی شہر میں آج"مفاہمتی مجرم"بن کرکھڑی ہے ۔نہ ساز نہ آواز نہ رعدنہ گونج۔نہ طنطنہ نہ ہمہمہ۔بس چلتے چلتے پیپلز پارٹی مرحومہ کا شاندار ماضی یاد آگیا۔بات ہورہی تھی"چوک نیائیں"کی ۔عزیز ذوالفقار گوجرانوالہ میں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے بانی تھے ۔ایک بار اسلام آباد میں ڈاکٹر عبدالقدیر خاں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے سب سے پہلے عزیز ذوالفقار صاحب کی خیریت دریافت کی اور یہ انکشاف بھی کیا کہ ہمارے ایٹمی پروگرام پر ان کے بڑے احسانات ہیں ۔لگ بھگ ایک دہائی قبل ملک عدم کے راہی ہوگئے۔یہیںنزدیک ہی پیپلز پارٹی کے ایک درویش ایم ۔پی ۔اے اسماعیل ضیاء کاگھر اور کارخانہ تھاجہنوں نے غلام دستگیر خاں کو شکست دی تھی ۔بڑے صاحب علم قناعت پسند اور انسان دوست آدمی تھے ۔میاںمحمود علی قصوری اور شیخ رفیق کے ساتھ ہی نیشنل عوامی پارٹی سے پیپلز پارٹی میں آئے تھے ۔ ہمارے ایم ۔این ۔اے اور "بے محکمہ وزیر"عثمان ابراہیم کے والداور گوجرانوالہ میونسپل کمیٹی کے پہلے چیئر مین حاجی ابراہیم انصاری جیسے دبنگ اور وجہیہ شخص کی رہائش بھی اس شاہراہ پرتھی۔انکا قائم کردہ مدرسہ بھی یہیں تھا۔جہاں علامہ احسان الہی ظہیر جیسے نابغہ روز گار لوگ تعلیم کی دولت سے مالامال ہوئے۔چوک گھنٹہ گھر سے جو سڑک چوک نیائیں کو آکر ملتی ہے یہاں گوجرانوالہ کے "سرسید"بابو عبدالرحیم کھوکھررہائش پذیر تھے۔کھوکھر صاحب شہر کی وہ پہلی شخصیت تھے جو علی گڑھ سے ایم ۔ایس۔سی کرکے آئے اور شہر میں"انجمن ترقی علم وصنعت" کی بنیاد رکھی۔انہوں نے کوئی نوکری وغیرہ کرنے کی بجائے "ایچ۔ایم۔عبداللہ" اینڈ سنزکے نام سے شہر میں بینک لاکرز اور لوھے کی الماریوں کی صنعت کی بنیاد رکھی پشتینی رئیس تھے شہر بھر میں سکولوں کے جال پھیلا دیئے۔اے ۔ڈی ماڈل ہائی سکول ۔پی بی ماڈل ہائی سکول ۔مسلم ماڈل ہائی سکول فار گرلز۔ٹیکنیکل ایجوکیشن مڈل سکول اور آخر میں ماڈل ٹائون کی جدید بستی میںایک وسیع رقبے پر مشتمل لڑکیوں کیلئے ایک ڈگری کالج "جامعتہ البنات"قائم کیا۔اب تک ان اداروں سے لاکھوں طلباء وطالبات فارغ ہوچکے ہیں ۔اب کا تو مجھے علم نہیں چند سال پہلے تک ان کی فیسیں سینکڑوں کی بجائے چند روپے ہوا کرتی تھی۔بابو عبدالرحیم کھوکھر پندرہ بیس سال قبل راہی ملک عدم ہوئے تو کالج کا انتظام بھی کچھ ڈھیلا پڑ گیا۔ضرورت ہے کہ کوئی آگے بڑھے اور اتنے عظیم ادارے کو سنبھالادے سکے ۔کھوکھر صاحب کے بڑے صاحبزادے ایوب الحسن کھوکھر اگر توجہ دیں تو معاملات بہتر ہوسکتے ہیں۔اسی شاہراہ پر یوسف نامی ایک شخص واشنگ مشینوں کا کام کرتا تھاجس نے خاندان کے ساتھ مل کر بڑی محنت کی ۔اللہ نے محنت کا پھل دیا اور آج وہ خاندان پاکستان کی ایک بڑی صنعت "سپر ایشیاء انڈسٹریز"کا مالک ہے جو واشنگ مشین سے لے کر پنکھے۔ایئر کنڈیشنراور موٹر سائیکل کے علاوہ اور بہت کچھ بنا رہے ہیں۔تحریک انصاف کے مقامی راہنما اور ٹکٹ ہولڈر بیرسٹر علی اشرف مغل اسی خاندان کے چشم وچراغ ہیں ۔کھیالی دروازہ سے چوک نیائیںآنے والی شاہراہ پر پیپلز پارٹی کے ممبر قومی اسمبلی اور سابق وفاقی وزیر حاجی امان اللہ مرحوم کادولت کدہ تھا۔حاجی صاحب شہر کے ریئس انتہائی شریف النفس ۔صاحب کردار۔اور قرن اول کے مسلمانوں کی طرح پاکباز تھے ۔شہر کی سب سے بڑی سبزی اور فروٹ منڈی حاجی امان اللہ کی ملکیت تھی۔ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹوں نے وہ سیاست جو حاجی صاحب کی گھٹی میں تھی۔اس کو خیر باد کہہ دیا ۔حاجی امان اللہ کا وہ گھر جو ضیاء الحق کے جوروستم کے عہد میں بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹوکو امان دیتا تھا اب وہاں ایک نجی سکول قائم ہوگیا ہے۔سیاست کی وہ درخشاں تاریخ تمام ہوئی جو ان کے دم سے آباد تھی۔اسی شاہراہ پر ایک گلی میں ستارہ پاکستان یونس پہلوان کی رہائش تھی جہاں ان کے بھائی یعقوب پہلوان (تمغہ امتیاز)مرحوم اسحاق پہلوان اور اب عصمت پہلوان اپنی خاندانی شرافت لئے کبھی کبھی راہ چلتے مل جاتے ہیں۔بھولو پہلوان نے جب تک یونس پہلوان کو چت نہ کردیا تب تک وہ رستم پاکستان کا خطاب حاصل نہ کرسکا۔نوشہرہ روڈ پر مولانا عبدالعزیز چشتی ایوب خاں دورکے چیئر مین یونین کونسل مولا بخش قصاب ۔پیپلز پارٹی کے لالہ فاضل ۔چوہدری خدابخش گجراس شاہراہ کی زندہ جاوید رونق تھے۔یہ میرے شہراور"چوک نیائیں"کے وہ چاند تھے جو چمک چمک کے پلٹ گئے۔کچھ کا ذکر حصہ اول میں اور کچھ آج حصہ دوم کے حوالے سے یاد آگئے۔ اسی شاہراہ پر جماعت اسلامی کے چوہدری عبدالواحدکو ایک مدت کے بعد دیکھا تو طبعیت شاداب ہوگئی۔(اللہ انہیں زندگی اور صحت عطاء فرمائے۔ آمین)
چوک نیائیں گوجرانوالہ (حصہ دوم)
Jan 21, 2017