پاکستانی زرعی معیشت کو تہہ وبالا کرنے کا بھارتی منصوبہ

Jan 21, 2017

ناصر رضا کاظمی

ہمارے حکمران سیاستدانوں کے بھارت کے معاملے میں’ مشکوک‘ اور سست رو مجموعی سیاسی روئیے‘ معنی خیز مزاج پر مبنی کھلی عدم بصیرت اور صاف دکھائی دینے والی عدم دلچسپی کے غیر مقبول مظاہر نے آج پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی جیسی زرعی معیشت کو اِس ’لرزتے ہوئے مقام‘ پر لاکھڑا کیا ہے جیسے یوں لگتا ہے بھارت پاکستان کے ساتھ جو چاہے غیر اخلاقی ‘ عالمی قوانین کی خلاف ورزیاں اور طے شدہ عالمی معاہدے کی دھجیاں اڑائے ہم بھارت کو کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہ ماضی میں تھے اور نہ اب ہیں وہ پاکستان کے خلاف دنیا بھر میں خوب پروپیگنڈا کرتا پھرے ‘ ہم خاموش رہیں‘ وہ پاکستان پر جھوٹے اور من گھڑت الزامات لگاتا پھرے ہم چپ کا روزہ رکھیں رہیں دنیا بھر میں وہ پاکستانی دفاعی اداروں افواج ِ پاکستان اور دیگر حساس سیکورٹی کے اداروں پر متعصبانہ زہریلی نفرتوں کے کیچڑ اچھالتا رہے ہم اُس کے سامنے سرنگوں رہیں اب حال ہی میں نام نہاد اُڑی حملہ کی آڑ میں انتقام لینے کی دھمکی بھارت نے پاکستان کو دی ساتھ ہی اُس نے بلکہ وزیراعظم نریندرا مودی کی سطح پر بھارتی اسٹبلیشمنٹ نے یہ مذموم بیان جاری کیا کہ بھارت پاکستانی دریاؤں کے پانی کو مقبوضہ کشمیر میں مختلف مقاما ت پر نہریں نکال کر بند کرئے گا۔ پاکستانی وزیراعظم آفس سے خود وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی سطح سے بھارت کو ’تسلی و شافی‘ دوٹوک لب و لہجہ میں برابر ی سے جیسا جواب جانا چاہیئے تھا ایک غیرت مند قوم کی طرح پاکستانی عوام تاحال ایسا جواب سننے کے انتظار میں ہیں یہاں یقیناً پاکستانی قوم کا یہ بین الاقوامی حق بنتا ہے کہ ایک آزاد وخود مختار قوم کی مجموعی ترجمانی آخر کیوں نہیں کی جا رہی ؟ کیا اب ہم یہ سمجھیں لیں کہ بھارت کے تجارتی تعلقات کے روابط بڑھانے کی’’ ذاتی خواہشا ت و آرزؤں‘‘ نے ملک بھر کے کروڑ ں جفاکش و محنت کش کسانوں کی برسہا برس کی اُن خواہشات وآرزؤں کی نہ صرف پرواہ کرنا ہی چھوڑ دی ہے بلکہ پاکستان اور بھارت کے مابین چلے آنے والے اُن آبی تنازعات کا کوئی پُرامن حل تلاش کرنے پر بھی کوئی مؤثر اور ٹھوس سفارتی کوشش کرنے سے اپنے ہاتھ اُٹھا لیئے ہیں کم از کم اور کچھ نہیں تو پاکستانی سیاسی زعما ء کی جانب سے بھارت کو جراّت مندانہ رویہ اختیار کرکے اتنا ہی جتلادیا جانا چاہیئے کہ پاکستانی قوم اور پاکستانی حکومت بھارت کو کسی بھی صورت میں کسی صورت میں یہ حق دینے پر تیار نہیں ہو سکتی کہ وہ 1960 کے ’’سندھ طاس معاہدے‘‘ کی خلاف ورزی کا مرتکب ہونے کی اپنی سی کوئی انتہائی مذموم کوشش ہی کرئے اگر بھارت امن وآشی کی زبان نہیں سمجھتا تو پھر بھارت کو اُس کی خود اختیار کردہ زبان میں کیا سمجھا نے کا ابھی وقت نہیں آیا؟1960 کے طے پانے والی سندھ طاس معاہدے کی کسی بھی ایک شق میں کمی بیشی تو کجا، عالمی بنک اور دیگر کئی اہم ممالک کی ضمانت میں پاکستان اور بھارت کے مابین اِس معاہدے پر کبھی بھی کوئی ملک نہ اعتراض کرسکتا ہے نہ معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوسکتا اب مودی حکومت کا یہ کہنا پاکستان کی حکومت یا عوام کے لئے کوئی معنیٰ نہیں رکھتا کہ ’سندھ طاس معاہدہ‘ پر بھارت جب چاہے نظر ِ ثانی کرنا چاہتا ہے ؟ ایسا بالکل نہیں ہوسکتا‘یہ بھارت کا جھوٹا تکبر ہے، بوگس زعم ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں ہے ماضی میں بھی پاکستان کی جس بھی حکومت کے اداوار میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باونڈری پر باڑ لگا کر اقوام ِ متحدہ کی ’اسٹیٹس کو ‘ کی خلاف ورزی کی اور پاکستانی حکومتیں خاموش رہیں یقینا وہ آزاد وخود مختار اقوام کی تاریخ میں پاکستانی قوم کو جوابدہ ہیں، ایسی رعائتیں اگر بھارت کو دی گئیں تو کیوں دی گئیں؟ نئی دہلی کو ماضی میں دی جانے والی اِن ’نوازشات‘ کا پاکستان کو اگر فائدہ ہوا تو قوم کو بتا یا جائے ؟خطے میں امن اور قرار واقعی امن کی ذمہ دار ی صرف پاکستان پر عائد نہیں بھارت پر بھی یہ اہم حساس ذمہ داری عائد ہوتی ہے آج بھارتی اسٹبلیشمنٹ اپنی بین الااقوامی سفارتی حدوں کی اگر پاسداری نہیں کررہی ہے تو اِس کا ایک ٹریک ریکارڈ ہے ماضی میں پاکستانی سیاستدانوں نے بھارتی نازبرداریاں اُٹھائیں، چند پاکستانی ادارے ،جن میں خاص طور پر میڈیا سیکٹر اور چند منہ زور این جی اُوز نے باہمی ملی بھگت کرکے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانے کے ’یکطرفہ‘ خواب پاکستانی عوام کو دکھائے، بھارت حد سے آگے بڑھتا رہا پاکستانی سائٹ کے زور آور لوگ اور بھارت نواز طبقے خاموش رہے تادم ِ تحریر اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں کی ہمہ وقت کی کمزوریو ں کے، جھکتے چلے جانے کی ہمت شکن پالیسیوں نے نئی دہلی کو یہ ایک موقع فراہم کردیا ہے کہ وہ دریائے جہلم اور چناب کے پانی کے بہاؤ کو مقبوضہ کشمیر میں نہ صرف روکے بلکہ مقبوضہ علاقہ میں نہریں نکال کر اُن نہروں پر اپنے سینٹرل بھارت کی ضروریات کے لئے ’توانائی کے منصوبے‘ بنالے، یہ ظلم پاکستانیوں کے لئے ناقابل ِ برداشت کل بھی تھا آج بھی ہے اور خاص طور کشمیر کے علاقے سے آنے والے دریاؤں پر اہل ِ کشمیر کا کتنا زیادہ حق ہے‘ بھارت کی یہ دیدہ دلیری ملا حظہ کیجئے کہ اُس نے ورلڈ بنک کے نمائندہ کو اُن’متنازعہ آبی علاقوں‘ کادورہ کرنے کی اجازت تک نہیں دی‘ پاکستان کی جانب سے کوئی رد ِ عمل مگر نہیں آیا ؟ افسوس یہ کہ ملکی سیاسی اشرافیہ کی’ اپنی ترجیحات‘ ہیں، کل بھی ہر حکومت نے اسلام آباد کے اقتدار کو بچانے میں اپنا آئینی وقت یونہی گزار دیا جس کی آڑ میں نئی دہلی حکومت مقبوضہ کشمیر کی زمینی ‘ ثقافتی‘سماجی‘معاشرتی خاص کر مذہبی ترکیبی تاریخی ہیّت کو باآسانی تبدیل کرتی چلی آ رہی ہے ’ایسا کب تک چلے گا۔

مزیدخبریں