عزیزم پرویز رشید کو ایسے نہیں کرنا چاہیے تھا کہ اپنی جماعت کے ایک سینئراور اہم رہنما کے خلاف اس طرح بات کرتے۔ اپنی پارٹی کے کسی آدمی کے بارے میں تو ایسی باتیں نہیں کرتے۔ نواز شریف کو سوچنا چاہیے کہ ان کی جماعت میں یہ کیا ہو رہا ہے۔ نواز شریف بھی چودھری نثار سے سوچ سمجھ کر بات کرتے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ پارٹی میں بھی ایک اچھا ماحول بنانے میں کوئی کردار ادا کرنا چاہیے۔ ن لیگ کا ایک ایسا شخص ہے جو صرف ایک ہی ہے کوئی دوسرا نہیں۔ بلکہ کسی سیاسی جماعت میں ان جیسا آدمی نہیں۔
وہ پارلیمنٹ میں جائیں تو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے اردگرد اتنے لوگ نہیں ہوتے جتنا وہ چودھری نثار کی پذیرائی کرتے ہیں۔
چودھری نثار پارٹی سے چلا گیا تو باقی کیا رہ جائے گا۔ نواز شریف بات کریں۔ وہ بات نہیں کریں گے۔ وہ چودھری نثار کو جانتے ہیں۔
کسی آدمی کی اپنی پارٹی میں اپنی کوئی رائے ہے اور وہ اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرتا ہے تو اس کی عزت کی جائے۔
نواز شریف نے چودھری نثار سے مشورہ کیا تھا کہ پرویز رشید کی وزارت تبدیل کرتے ہیں مگر چودھری نثار نے منع کر دیا۔ پھر نواز شریف نے پرویز رشید اور خواجہ آصف کے خلاف کوئی ایکشن لیا۔ پرویز رشید گھر چلے گئے اور خواجہ آصف دبئی چلے گئے۔ خواجہ آصف آج بھی وزیر ہیں۔ وہ بھی وزیر خارجہ۔ مگر پرویز رشید کچھ بھی نہیں۔
کہا گیا کہ ڈان لیکس کو سامنے لایا جائے تو سب کچا چٹھہ نکل آئے گا۔ کہا گیا کہ شیر کے انتخابی نشان کے علاوہ چودھری نثار نہیں جیت سکتے۔ چودھری نثار کھڑا ہو گا تو جیتے گا۔ ہار جانا بھی کوئی بات نہیں اور جیت تو ہوتی رہتی ہے۔
عزیزم پرویز رشید کہتے ہیں کہ چودھری نثار کو اسٹیبلشمنٹ سیاست میں لائی ہے۔ خود نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد سے آئے ہیں۔ ان کے کاندھوں پر ابھی تک جنرل جیلانی اور جنرل ضیاالحق کی تھپکی کے ان دیکھے نشان ہوں گے۔
جنرل ضیاءنے تو کہا تھا کہ نواز شریف کو اللہ میری عمر بھی لگا دے۔ یہ دعا سنی گئی۔ وہ شہید ہوئے۔ گویا اب نواز شریف جنرل ضیاءکی عمر گزار رہے ہیں۔ جنرل ضیاءکی قبر پر نواز شریف نے کہا تھا کہ میں جنرل ضیاءمشن کو پورا کروں گا۔ وہ آج کل یہی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جنرل ضیاءکے جانشین تو اعجازالحق تھے جنہوں نے سیاست میں کچھ کردار تو ادا کیا مگر انہیں سامنے نہیں آنے دیا گیا۔ میں نے ایک ملاقات میں ان سے کہا کہ وہ کچھ کریں۔ وہ خاموش رہے مگر خاموش ہونے میں ایک راز ہے۔ اعجاز کو ہمراز بنانا نہیں آتا۔
ایک بہت محترم اور عزیز خاتون ہے عنبر شاہد۔ بہت پہلے اس نے شاعری شروع کی۔ اس میں برادرم اقبال راہی نے بھی معاونت کی مگر عنبر کہیں گم ہو گئی۔ اس کے شوہر شاہد محمود صاحب کسی اور علاقے کے آدمی ہیں۔ پچھلے دنوں میں اور رفعت خانم ان کے گھر گئے۔ گپ شپ چلتی رہی۔ پھر ایک غزل عنبر شاہد نے سنائی۔ میں حیران رہ گیا۔ میرا جی چاہتا ہے کہ یہ غزل آپ تک بھی پہنچے۔
ڈوبتے دل کا مرے کوئی سہارا بھی تو ہو
میرے غم کی موج کا کوئی کنارا بھی تو ہو
ننگے پاﺅں دوڑ کر جاﺅں گی ملنے کے لیے
مسکرا کر اس نے پر مجھ کو پکارا بھی تو ہو
ایک پل میں طے کریں گے عشق کی سب منزلیں
تیری جانب سے مگر کوئی اشارا بھی تو ہو
رات تنہائی میں عنبر آسماں تکتی رہی
میری قسمت کا کہیں اس میں ستارا بھی تو ہو
٭٭٭٭٭