جمہوریت کو پامال نہیں ہونے دیں گے ایماندار لیڈر شپ ملے گی تو قسمت بدل جائے گی: چیف جسٹس

لاہور(وقائع نگار خصوصی)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ملک میں جمہوریت کو پامال نہیں ہونے دیں گے، اب صرف آئین اور قانون کی حکمرانی رہے گی۔وکلاءکی ڈیڑھ لاکھ فوج عدلیہ کے پیچھے ہے۔عدلیہ جمہوریت کی محافظ ہے اور اس کےلئے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرے گی۔اگر اس ذمہ داری سے کوئی پہلو تہی کی گئی تو عوام کا ہاتھ اور ہمارا گریبان ہو گا۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار سے خطاب میں چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدلیہ کے بارے میں کسی کے کچھ کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ہم تحمل اور برداشت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ ایک ایسا ادارہ ہے جس کا کام فتنہ ختم کرنا ہے۔ ریاست جیسے جیسے طاقتور ہو رہی ہے عوام کے حقوق میں مداخلت بڑھ رہی ہے شہریوں کو ان کا حق دلوانے کے لیے عدلیہ اپنا کام کرتی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ انصاف کرنا کسی پر احسان نہیں ذمہ داری ہے، کسی جج کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں۔ جس نے مظلوم کی دادرسی نہیں کرنی وہ گھر جائے۔ انہوں نے کہا کہ قومیں علم، لیڈر شپ اور مضبوط عدلیہ سے ترقی کرتی ہےں۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ شاہ زیب قتل کیس میں از خود نوٹس نہیں لیا گیا ۔جبکہ نہال ہاشمی کے خلاف توہین عدالت کے از خود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں بنچ تشکیل دیا جا چکا جو آئندہ تین روز بعد کیس کی سماعت کرے گا۔چیف جسٹس نے وکلاءکو تنبیہ کی کہ وہ ججوں کو بیچنا چھوڑ دیں اور وکلاءعہدیدار کم سے کم مقدمے لیں۔ جج صاحبان وکلاءکی عزت کریں ۔چیف جسٹس پاکستان نے اپنی تقریر میں یہ اشارہ بھی دیا کہ عدلیہ پر مشکل وقت ہے تاہم انہوں نے اس کی وضاحت نہیں کی۔انہوں نے کہا کہ عدلیہ کا اداراہ ایک نگران ہے۔ انہوں نے وکلا سے کہا کہ ایک سال تک وکلا ان کے مشن میں ساتھ دیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر وہ وعدہ پورا نہ کریں عوام کا ہاتھ اور ان کا گریبان ہوگا۔انہوں نے کہا کہ کپتان اپنی ٹیم پر انحصار کرتا ہے اور میرا بینچ جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس شیخ عظمت اور جسٹس ا عجاز افضل کے بغیر نا مکمل ہے۔میں اس بینچ کا سب سے کم علم جج ہوں۔بنچ کے تمام لوگ دیانت داری اور قابلیت کا بہترین نمونہ ہے،میں کس کس ہیرے کا نام لوں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ اور میں لازم و ملزم ہیں۔ عدلیہ مکمل آزاد اور ہمیں اس پر فخر ہے۔بار اور بنچ عدلیہ کے دو بازو ہیں، کوئی ایک مفلوج ہو جائے تو ادارہ مفلوج ہو جاتا ہے۔بار بنچ کی اور بنچ بار کی طاقت ہے۔جس شعبے سے روزی وابسطہ ہو اس کی کوئی تذلیل کیوں کرے؟انہوں نے کہا بد قسمتی سے ملک کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے لیکن ان سے گھبرانا نہیں۔ ایماندار لیڈر شپ ملے گی تو لوگوں کی زندگی بدل جائے گی۔ جس جج نے پانچ پانچ ماہ میں فیصلے لکھنے ہیں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں اسے گھر چلے جانا چاہیے۔ یہ تصور نہیں ہونا چاہیے کہ جسم کا ایک حصہ دوسرے حصے کو کاٹے گا۔ روز محشر سب سے پہلے منصف کا حساب ہوگا اور اسے جزا ملے گی۔ میں نے اپنے بیوی اور بچوں کوکہہ رکھاہے کہ ایک سال تک میں آپ کا نہیں۔ مجھے پنشن کیس سن کر بہت شرم آئی، جس میں ادارہ ملازم کو 472 روپے پنشن دے رہاہے، جنہیں ان مظلوموں کی دادرسی کرنی ہے وہ تو نہیں کررہا لیکن جج صاحبان کو انہیں انصاف فراہم کرنا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں تعلیم، ایماندارقیادت اور مضبوط عدالتی نظام کی ضرورت ہے۔ نئی نسل ہماری طرف دیکھ رہی ہے۔ انصاف کرنا اللہ کی ایک صفت ہے، اس میں رزق بھی دیا، عزت بھی دیدی۔ سیمینار سے جسٹس آصف سعید خان کھوسہ اور دیگر ججز نے بھی خطاب کیا۔لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے فاضل چیف جسٹس کو سو ویئنر بھی پیش کیا۔

چیف جسٹس

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...