چیف جسٹس کی پارلیمنٹ کے سپریم ہونے کی گواہی اور نوازشریف کا پارلیمنٹ کو گالیاں دینے والوں سے رکنیت چھوڑنے کا تقاضا
چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ کوئی کچھ بھی کہے‘ ہم پارلیمنٹ کی بہت عزت کرتے ہیں‘ ہمارے لئے پارلیمنٹ ہی سپریم ادارہ ہے۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں کٹاس راج مندر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جہاں ادارے کچھ نہیں کرینگے تو ہم کرینگے‘ پھر دائرۂ اختیار سے تجاوز کا شکوہ نہ کیا جائے۔ ہم اداروں کو اس طرح نہیں چلنے دینگے۔ اقلیتی رکن قومی اسمبلی رمیش کمار کی جانب سے متروکہ وقف املاک بورڈ کا چیئرمین اقلیت سے لینے کی پیش کردہ تجویز پر ریمارکس دیتے ہوئے فاضل چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ہم پارلیمنٹ کو ایسا کرنے کا کہہ سکتے ہیں۔ فاضل چیف جسٹس نے صدیق الفاروق کو متروکہ وقف املاک بورڈ کا چیئرمین بنانے کا بھی نوٹس لیا اور باور کرایا کہ پارٹی سیکرٹیریٹ میں اخبار اکٹھے کرنیوالے کو اس اہم عہدے پر لگا دیا گیا جبکہ اس عہدے پر بیٹھے شخص کو قانونی چیزیں بھی دیکھنا ہوتی ہیں۔ ہم سیاسی اقرباء پروری کا خاتمہ کرینگے۔ فاضل چیف جسٹس نے چیئرمین متروکہ وقف بورڈ کے عدالت میں پیش نہ ہونے کا بھی نوٹس لیا اور ریمارکس دیئے کہ کیوں نہ انہیں عہدے سے ہٹا دیا جائے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آئین پاکستان کے تحت آج ملک میں وفاقی پارلیمانی نظام رائج ہے جو پارلیمنٹ کی بنیادوں پر کھڑا ہے چنانچہ اس نظام کے استحکام کیلئے اسکی بنیادوں کو مستحکم کرنا ضروری ہے۔ اس تناظر میں چیف جسٹس سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کو سپریم قرار دے کر ایک آئینی حقیقت کی نشاندہی کی ہے۔ بے شک آئین پاکستان میں ریاست کے تمام ستونوں کے آئینی اختیارات اور حدودوقیود متعین کردی گئی ہیں چونکہ یہ حدودوقیود پارلیمنٹ کے اندر متعین ہوئی ہیں جو آئین و قانون سازی کا مجاز ادارہ ہے اس لئے پارلیمنٹ کو اسکے کام اور اختیارات کی نوعیت کی بنیاد پر دوسرے ریاستی ستونوں انتظامیہ اور عدلیہ پر برتری حاصل ہے کیونکہ ان دونوں ریاستی ستونوں نے پارلیمنٹ کے ودیعت کردہ اختیارات کے مطابق ہی اپنے فرائض سرانجام دینے ہوتے ہیں۔ جب جرنیلی آمروں کے دلوں میں ماورائے آئین اقدام کے تحت سسٹم کی بساط لپیٹنے کا سودا سماتا ہے تو وہ منتخب پارلیمنٹ ہی کو گھر بھجوا کر اپنے جرنیلی مقاصد پورے کرتے ہیں۔ اس تناظر میں پارلیمنٹ کو مضبوط کرنا اور اسکے تقدس پر کوئی حرف نہ آنے دینا سسٹم سے وابستہ تمام شخصیات اور اداروں کیلئے ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص مروجہ نظام کی بنیاد پارلیمنٹ کا رکن بھی ہو جسے اسکے حلقہ انتخاب کے لوگوں نے پارلیمنٹ کے ذریعے اپنے مسائل کے حل اور ملکی و قومی معاملات پر قانون سازی کیلئے منتخب کرکے بھجوایا ہوتا ہے‘ وہ اسی پارلیمنٹ کو مطعون کرکے اسکی بنیادیں ہلانے کے درپے ہو جائے تو اسے پارلیمنٹ میں اپنے حلقۂ انتخاب کی نمائندگی کا بھی کوئی حق حاصل نہیں۔ چونکہ پارلیمنٹ اجتماعی طور پر قوم کا نمائندہ فورم ہے جہاں حکمران جماعتوں کے نمائندگان ہی نہیں‘ اپوزیشن جماعتوں کو بھی ملکی اور قومی مفاد والی قانون سازی اور کسی قانون میں ردوبدل کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے جبکہ قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف اپنے اپنے مؤقف کے تحت قوم کی نمائندگی کرتے ہیں اس لئے پارلیمنٹ کے منتخب ایوان کو کسی حکومتی ادارے سے ہرگز تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔
بے شک اپوزیشن جماعتوں اور انکے قائدین کو حکومتی پالیسیوں سے اختلاف اور حکومت پر تنقید کا حق حاصل ہوتا ہے اور یہی جمہوریت کا حسن ہے کہ اس میں اپوزیشن حکمرانوں پر محاسبے کی تلوار لٹکا کر انہیں بے سمت اور آئین و قانون کا سرکش نہیں ہونے دیتی اور من مانیوں پر انکی فوری پکڑ کرلیتی ہے۔ اپوزیشن کو حکومت کے محاسبے کا اختیار پارلیمنٹ کے صدقے ہی حاصل ہوا ہے۔ اسی طرح دوسرے ریاستی ادارے بھی پارلیمنٹ کے ودیعت کردہ اختیارات ہی انجوائے کررہے ہیں۔ اس تناظر میں پارلیمنٹ کا تحفظ کرنا اور اسے کمزور نہ ہونے دینا تمام ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ اگر ریاستی ادارے اپنے اپنے آئینی اختیارات کی حدود میں رہ کر فرائض منصبی ادا کررہے ہوں تو اس سے پارلیمنٹ کی بنیاد خود ہی مستحکم ہو جاتی ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے جو خود بھی حکومت اور اسکے اداروں کی کارکردگی پر شاکی ہیں اور انہوں نے اپنے ازخود اختیارات کے تحت ادارہ جاتی اصلاح احوال کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے‘ یقیناً اسی تناظر میں پارلیمنٹ کو سپریم قرار دیا ہے کہ امور حکومت و مملکت اسی کے ماتحت چل رہے ہیں۔ یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ کسی مخصوص ایجنڈے کے تحت حکومت کو چلنے نہ دینے کے عزم پر کاربند اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے حکومت مخالف تحریک کو پورے سسٹم کی بساط لپیٹنے کی تحریک میں تبدیل کر دیا ہے چنانچہ وہ اس پارلیمنٹ کے ہی درپے ہوگئے ہیں جس میں بیٹھ کر وہ حکمرانوں اور حکومتی پارٹی کے قائدین کے محاسبے کا شوق پورا کرتے ہیں اور اپنے تئیں خود کو مقبول ترین عوامی لیڈر گردانتے ہیں۔ انہوں نے لاہور کے احتجاجی پروگرام میں جو درحقیقت کینیڈین باشندے ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے جمہوریت دشمن ایجنڈے کی تکمیل کیلئے سجایا تھا‘ پارلیمنٹ کو مطعون کرکے جہاں پاکستان اور اسکے مروجہ نظام سے کسی قسم کا سروکار نہ رکھنے والے کینیڈین شہری کے ایجنڈے کو تقویت پہنچائی وہیں انہوں نے پارلیمنٹ میں عوام کی نمائندگی کا جواز بھی کھو دیا۔ انکی ریاکارانہ سیاست کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ پارلیمنٹ کا رکن بن کر پی ٹی آئی کے ارکان اپنی تنخواہ اور الائونسوں کی مد میں قومی خزانہ کو 30 کروڑ روپے سے زائد کا ٹیکہ بھی لگا چکے ہیں اور پارلمینٹیرین کی حیثیت سے قوم کی نمائندگی کے بھی داعی ہوتے ہیں اور پھر اسی پارلیمنٹ پر 100 بار لعنت بھیجنا بھی اپنا اعزاز بناتے ہیں جبکہ انکی سیاست میں کوئی دم خم ہے تو اسی پارلیمنٹ کے صدقے سے ہے۔ اگر وہ اپنے منتخب نمائندہ فورم کو ملعون کرنا بھی اپنا حق گردانتے ہیں تو عوام کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ انہیں اپنے نمائندہ فورم پارلیمنٹ کے قریب بھی نہ پھٹکنے دیں۔ اس سلسلہ میں اگر حکمران مسلم لیگ (ن) نے عمران خان اور طاہرالقادری کی 2014ء کی دھرنا تحریک کے دوران اپنی سہولت کی سیاست نہ کی ہوتی اور پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے ارکان کے اپنے دستخطوں کے ساتھ اسمبلی سیکریٹریٹ کو موصول ہونیوالے استعفے آئین کی دفعہ 64 شق ایک کے تقاضے کے تحت اسی وقت منظور کرلئے جاتے تو یہ آئینی تقاضا پورا کرکے پارلیمنٹ کو مطعون کرنیوالوں سے اسی وقت خلاصی حاصل کرلی جاتی۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ قومی اور پنجاب اسمبلی کے سپیکرز نے بھی آئین کے تحت مستعفی ہونیوالے ارکان کو آئین کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے اسمبلیوں میں بٹھائے رکھا اور انہیں رکن اسمبلی والی تنخواہیں اور مراعات بھی دی جاتی رہیں جبکہ مستعفی ہونیوالے ارکان بھی پوری ڈھٹائی کے ساتھ یہ تنخواہیں اور مراعات وصول کرتے رہے۔ اس سے بڑی منافقانہ سیاست بھلا اور کیا ہو سکتی ہے۔ آج سابق وزیراعظم میاں نوازشریف اس امر کا تقاضا کررہے ہیں کہ پارلیمنٹ کو گالیاں دینے والے اسکی رکنیت چھوڑ کیوں نہیں دیتے اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اس امر کے متقاضی ہیں کہ پارلیمنٹ پر لعن طعن کرنیوالے معافی مانگیں بصورت دیگر انکے معاملہ کا ازخود نوٹس لیا جاسکتا ہے جبکہ 2014ء میں میاں نوازشریف کے ایماء پر ہی سپیکر قومی اسمبلی سردار ایازصادق اور سپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال نے پی ٹی آئی کے مستعفی ارکان کے استعفے منظور نہیں کئے تھے۔ اگر ہمارے قومی سیاسی قائدین آئینی تقاضوں کے باوصف اپنے اپنے مفادات اور سہولتوں کی سیاست کرینگے تو اس سے سسٹم کی بنیاد پارلیمنٹ ہی کمزور ہوگی‘ اس لئے سسٹم کو لاحق خطرات ٹالنا اور اسکے ثمرات عوام تک پہنچانا مقصود ہے تو پھر آئین و قانون کی حکمرانی پر کسی بھی مفاہمت سے بہرصورت گریز کرنا ہوگا۔
یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ پارلیمنٹ پر لعنت ملامت کرنیوالوں کیخلاف پارلیمنٹ میں متفقہ قرارداد منظور کرکے ارکان پارلیمنٹ نے ان کیخلاف اظہار یکجہتی کیا ہے اور اب چیف جسٹس سپریم کورٹ نے بھی پارلیمنٹ کے برتر ہونے پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ اب قوم کے اجتماعی شعور کا امتحان ہے کہ وہ اپنے منتخب نمائندہ فورم پر لعنت بھیجنے والوں کو آئندہ انتخابات میں پھر منتخب کرکے اس منتخب فورم میں ہی بھیجتی ہے یا انہیں راندۂ درگاہ بنا کر گھر بھجواتی ہے۔