پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی نااہلیت کا ذمہ دار کون ہے ؟

Jan 21, 2019

اسلم لودھی

میرے ہاتھ میں اس وقت پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بو رڈ لاہور کی آٹھویں اردو کی کتاب ہے ‘ 2018 میں شائع ہونے والی یہ کتاب پنجاب کے تمام سرکاری و پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں لازمی پڑھائی جارہی ہے ۔اس کتاب کے صفحہ نمبر 55 پر پاک فوج کے ایک شہید جوان کی کہانی شائع کی گئی ہے جس کانام کتاب میں" لانس نائیک لال حسین شہید" لکھاہے۔اس کہانی کو لکھنے والے مصنف کو اس بات کا بھی علم نہیں کہ اس نام کے کسی بھی افسر یا جوان کو نشان حیدر نہیں ملا ۔ اب تک پاک فوج کے جن افسروں اور جوانوں کو نشان حیدر ملے ہیں‘ ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں ۔کیپٹن راجہ محمدسرور شہید ‘ میجر چوہدری طفیل محمد شہید ‘ میجر راجہ عزیز بھٹی شہید ‘ پائلٹ آفیسر راشد منہاس شہید ‘ میجر شبیر شریف شہید ‘ سوار محمد حسین شہید ‘ میجر محمداکرم شہید ‘ لانس نائیک محمد محفوظ شہید ‘ کیپٹن (کرنل) شیر خان شہید ‘ حوالدار لالک جان شہید ۔ نائیک سیف علی جنجوعہ کو ہلال کشمیر عطا کیا گیا جو نشان حیدر کے برابر تصور کیاجاتاہے۔ ان ناموں کو اگر ہم غور سے دیکھیں تو کہیں بھی ہمیں لانس نائیک لا ل حسین شہید کانام دکھائی نہیں دیتا ۔ مضمون نگار کہانی کا آغاز کچھ یوں کرتے ہیں۔ " ستمبر 1965ء میں دشمن نے رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حملہ کرکے ایک سرحدی چوکی پر قبضہ کرلیا ۔پلاٹون کمانڈر نے چند جوانوں کو بلاکر کہا کہ ‘ ہمیں یہ چوکی خالی کروانی پڑے گی‘ ایک جوان آگے بڑھا سیلوٹ کرکے اس نے کہا سر میں ایسا کرنے کو تیار ہوں "۔سب سے پہلے بات تو یہ ہے کہ یہ کہانی لانس نائیک محمد محفوظ شہید کی ہے جن کا نام کتاب میں غلط لکھاگیا ‘ جوتوہین آمیز بات ہے ‘ دوسری غلطی یہ ہوئی کہ یہ واقعہ 1965ء کی بجائے 1971ء کی جنگ میں پیش آیا ۔ان باتوں کے باوجود یہ مضمون نہ جانے کب سے اردو کی لازمی کتاب میں پڑھااور پڑھایا جارہاہے ۔واقعات کی تصحیح کیلئے حقیقی واقعہ یہاں بیان کیا جاتا ہے- 16" دسمبر 1971ء کو سقوط ڈھاکہ کا سانحہ رونما ہوا 17 دسمبر 1971ء کو مغربی محاذ پر شام ساڑھے سات بجے جنگ بندی پر عمل شروع ہونا تھا ۔ مکار دشمن نے جنگ بندی سے پہلے ہی پل کنجری نامی گائوںپر گولہ باری کرکے قبضہ کرلیا۔پل کنجری گائوں کو بھارتی فوج سے آزاد کروانا پاک فوج کیلئے ایک چیلنج بن گیا ۔اس اہم مشن میں حصہ لینے کیلئے تین مختلف پلاٹون تشکیل دی گئیں ۔ دائیں جانب سے حملہ آور ہونے کی ذمہ داری نائب صوبیدار محمد ریاض کی کمان میں پلاٹون نمبر 1کی تھی ‘ پلاٹون نمبر 2جس کی قیادت حوالدار محمد شریف کررہے تھے‘ کو درمیان میں رکھا گیا جبکہ پلاٹون نمبر 3کو حوالدار اصغر علی کی قیادت میں بائیں جانب حملہ آور ہونے کا ٹاسک سونپا گیا۔ اسی پلاٹون میں نشان حید ر حاصل کرنیوالا پاک فوج کا عظیم سرفروش لانس نائیک محمد محفوظ بھی شامل تھا۔ٹھیک صبح ساڑھے چھ بجے حملہ کا آغاز ہونا تھا ۔لیکن گائوں سے 70گز پہلے ایک نالہ تھاجس کی چوڑائی آٹھ فٹ اور گہرائی بھی چھ فٹ تھی‘ کنارے پر بے شمار جھاڑیاں اور سرکنڈے کھڑے تھے‘ جس کی وجہ سے وہ نالہ آنکھوں سے اوجھل تھا ۔ماحول پر ابھی رات کا اندھیرا چھایاہواتھا‘مشین گن ‘ رائفلیں ‘ وائر لیس سیٹ اورایمونیشن کا بوجھ ہر جوان کے کندھے پر موجود تھا۔جونہی حملے کا آغاز ہواتو جوانوں نے گائوں کی جانب پیش قدمی شروع کردی ‘بے دھیانی میں کتنے ہی جوان نالے میں جا گرے جس کی وجہ سے حملہ کی تندہی اور تیزی جاتی رہی ۔دن کااجالا پھیل چکا تھا‘دشمن گائوں کی کھڑکیوں ‘ چھتوں اور دیواروں کی اوٹ میں چھپا ہوا تھا اس لیے انہیں پاک فوج کے جوان گائوں کی جانب بڑھتے ہوئے صاف دکھائی دے رہے تھے‘اس لیے وہ مشین گنوں اور خودکار ہتھیاروںسے بے دریغ فائرنگ کررہا تھا جس سے زمین کا شاید ہی کوئی حصہ محفوظ رہا ہو۔ جبکہ تینوں پلاٹونوں کے آدھے سے زیادہ جوان ‘دشمن کی مسلسل فائرنگ سے شہید ہوچکے تھے ‘شدید ترین گولہ باری میں بھی تین جوان زمین پر رینگتے ہوئے کہنیوںکے بل اس مورچے کے بالکل قریب جا پہنچے جہاں سے مسلسل سٹین گن کا فائر آرہاتھا ‘ جنگ بندی ہونے کی بنا پر توپ خانے کا فائر بھی میسر نہ تھا‘ جیسے ہی لانس نائیک محفوظ مورچے کے قریب پہنچا تو گن کا ایک شل ان کی ٹانگوںپر لگا ‘ جس سے ٹانگیں شدید زخمی ہوگئیں‘ وہ شدید زخمی حالت میں بھی رینگتا ہوا دشمن کی مورچے کے قریب جیسے ہی پہنچا تو گولیوں کی ایک بوچھاڑ لانس نائیک محفوظ کے سینے کو چھلنی کرگئی ‘ یہی وہ لمحہ تھا جب اس نے نعرہ تکبیر لگایا اور پوری طاقت سے اچھل کر بھارتی فوج کے گنر کا گلہ دبوچ لیا ‘ قریب ہی موجود دوسرے بھارتی فوجیوں نے اپنی سنگینیں لانس نائیک محفوظ کے سینے میں پیوست کردیں جس سے پاک فو ج کایہ عظیم مجاہد جام شہادت نوش کرگیا ۔ 18دسمبر 1971ء کو شام پانچ بجے فلیگ میٹنگ کے دوران بھارتی کمانڈ ر لیفٹیننٹ کرنل سریش پوری نے لانس نائیک محمد محفوظ شہید کی نعش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس نوجوان نے جس بہادری کا مظاہرہ کیا اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا ۔" یاد رہے کہ لانس نائیک محمد محفوظ شہید کی چھ ماہ بعد قبر کشائی کرکے دوسری جگہ منتقل کیاگیا تو نہ صرف زخموں سے تازہ خون بہہ رہا تھابلکہ زندہ انسان کی طرح داڑھی بھی بڑھی ہوئی تھی ۔قرآن میں ہے کہ شہید کو مردہ مت کہو وہ تو زندہ ہے تمہیں اسکی زندگی کا شعور نہیں ۔کہوٹہ کے نواحی قصبے پنڈ ملکاںمیں 1944ء میں پیدا ہونے والا محمد محفوظ 1961ء میں پاک فوج کا حصہ بنا اور 17 دسمبر 1971ء کو مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے ۔

مزیدخبریں