نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ سے توقعات

Jan 21, 2019

میاں خورشید محمود قصوری

میڈیا میں رہنے کی خواہش:
انگلستان میں ججوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا گوشہ نشین ہونا ہی بہترہے۔ شاید اسی لیے برطانیہ میں ٹیلیفون ڈائریکٹر یوں میں ججوں کے نام نہیں ہوتے۔ہفتے کے ساتوں دنوں میں چوبیس گھنٹے چلنے والے ٹی وی چینلوں کے زمانے میں خبروں میں رہنے کی خواہش رکھنے والوں کے برعکس وہاں یہ مشہور ہے کہ جج اپنے فیصلوں کے ذریعے بولتے ہیں۔
میں اس بات پر بھی بہت حیران ہوا کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے وزیراعظم عمران خان کو دعوت دی کہ وہ ان کے ساتھ آکر سٹیج شیئرکریں۔ اگرچہ یہ تقریب ایک فلاحی مقصد کے لیے ہی تھی۔کیا یہ مناسب تھا کہ حاضرسروس چیف جسٹس وقت کے وزیراعظم کے ساتھ سٹیج شیئر کریں۔
وزیراعظم عمران خان کی سٹار ویلیومستند ہے اور ان کا فلاحی مقاصد کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کا ریکارڈ ثابت شدہ ہے ۔ غالباً ان کے علاوہ پاکستان میں صرف بے نظیر بھٹو ہی وہ واحد سیاستدان تھیں جن کی عمران خان کی طرح سٹاراپیل تھی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیاپاکستان میں بے مثال سٹاراپیل رکھنے والے عمران خان خود سے فنڈز اکٹھے نہیں کرسکتے تھے ؟
یہ بات کافی مشہور ہے کہ پاکستان کے پہلے چیف جسٹس سر عبدالرشید نے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان سے ملنے سے انکار کردیا تھا۔ کیونکہ وہ محسوس کرتے تھے کہ یہ آزاد عدلیہ کے تقاضوں کے منافی ہوگا۔ اس کے علاوہ یہ حکومتی اداروں کے اختیارات کی ثلاثی تقسیم کے بھی منافی ہوتا۔
قانونی پوزیشن کا واضح ہونا :
ہمارا عدالتی نظام قانون کی ان عدالتوں پر مشتمل ہے جن کے ا ختیارات اور قانونی حیثیت کو آئین سے اخذ کیا گیا ہے۔ ہماری عدالتوں کو پرانے زمانے کے انگلستان کی کورٹس آف ایکویٹی (Courts of Equity) کی طرح کام کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔
اس حوالے سے برطانوی آئینی قانون کا ایک مقولہ انتباہ کرتا ہے کہ ایکویٹی ایک خطرناک چیز ہے۔ قانون کے لیے ہمارے پاس تولنے کا پیمانہ ہوتا ہے ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ وہ کیا ہے جس پرہم اعتبار کرسکتے ہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ انگلستان کے پرانے دور میں ایکویٹی کے قانون کو چانسلر کے جوتے کے سائز کی مثال سے سمجھایا جاتا تھا ۔(Equity varies with the size of the Chancellor's foot)جس طرح نیا چانسلر آیا کرتا تھا اسی طرح ایکویٹی کا قانون بھی بدل جاتا تھا۔مراد یہ ہے کہ چانسلر جس بات پر اطمینان محسوس کرتا تھا وہی قانون کا درجہ پا لیتی تھی۔ آج کے دور میں ایسا نہیں ہوناچاہیے۔
حال ہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک بہت معروف اور سینئر قانون دان نے مجھے یہ بات بتا کر حیرت زدہ کردیا کہ ایک مقدمے کی سماعت کے دوران جب چیف جسٹس ثاقب نثار کو متعلقہ وکیل نے فیصلے سے کچھ دیر پہلے بتایا کہ چیف جسٹس جس رائے کا اظہار کررہے ہیں وہ قانون کے مطابق نہیں ہے۔ اس پر چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ’’قانون وہ ہے جو ہم کہتے ہیں! !‘ ‘
ہم امریکہ کی آئینی تاریخ سے بھی کچھ قیمتی سبق سیکھ سکتے ہیں۔ امریکہ کے مشہور مقدمے Marbury v Madison(1803) میں جسٹس جان مارشل (John Marshall) نے وہ مشہور فیصلہ دیا تھا جس سے امریکہ میں پہلی مرتبہ عدالتوں کو نظرثانی کے اختیارات حاصل ہوئے تھے۔ امریکہ میں سپریم کورٹ نے اس اختیار کا استعمال بہت کم کیا ہے اوراس حوالے سے خود ہی اپنے اوپر ایک خودساختہ سی پابندی لگا رکھی ہے۔
توہین عدالت کا قانون:
حالیہ دنوں میں ہم نے توہین عدالت کے نوٹسز کا سیلاب بھی دیکھا۔ کبھی توہین عدالت کے نوٹسز دیئے جانے کی دھمکیاں سنی گئیں اور کبھی سچ مچ یہ نوٹسز ملتے دیکھے گئے۔ ججوں کو اپنے اختیارات کی طاقت کی مثالوں سے نہیں پہچانا جاتا بلکہ ان کا احترام ان کے فیصلوں کے اعلیٰ معیار اور عمدگی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ہمارے کئی عظیم ججوں نے توہین عدالت کے قانون کے ضمن میں بہت احتیاط دکھائی ہے۔ مثال کے طورپر ہم میں سے بہت سے لوگوں نے قائداعظم (جوکہ ان دنوں مسٹرجناح کے طورپرجانے جاتے تھے)کا وہ واقعہ تو سنا ہوگا جس کے مطابق ایک مرتبہ جناح صاحب عدالت سے مخاطب تھے۔ قائداعظم جب بھی کوئی دلیل دیتے تو جج صاحب اس دلیل کے جواب میں کہتے ’’کچرا‘‘(Rubbish)۔ کچھ دیر یہ سلسلہ چلتا رہا پھر قائداعظم نے جج صاحب کی طرف دیکھا اور کہا :’’جناب والا! آج عزت مآب کے ساتھ کیا مسئلہ ہے۔کیا آپ کی طبیعت ناساز تو نہیں ہے؟ آج آپ کے منہ سے صرف ’’کچرا‘‘(Rubbish) ہی نکل رہا ہے۔‘‘مجھے ایک اور واقعہ یاد آرہا ہے جب میرے والد میاں محمود علی قصوری ایک دفعہ پاکستان کے ایک سینئر سیاستدان اصغرخان (جوکہ صوبہ سرحد سے تعلق رکھتے تھے) کے ایک مقدمے میں سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تھے۔ میرے والد سپریم کورٹ کے بینچ میں تمام پنجابی ججوں کی شمولیت پرخوش نہ تھے۔ انہوں نے عدالت سے مخاطب ہوکرکہا:’’ جناب والا! کیا میں سپریم کورٹ کے بینچ سے مخاطب ہوں یا پنجاب کورٹ کے بنچ سے؟‘‘یہاں یہ کہہ دینا ہی کافی ہوگا کہ ان دونوں مقدمات میں ججز نے کافی صبر کا مظاہرہ کیا اور نہ قائداعظم کو اور نہ ہی میرے والد کو توہین عدالت کے نوٹسز ملے۔
پاکستانی عدلیہ کی ایک شاندار میراث چیف جسٹس پاکستان جناب آصف سعید خان کھوسہ کی منتظرہے۔ ان کی تعلیمی قابلیت اور عدلیہ میں ٹریک ریکارڈ کے پیش نظر مجھے پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ وہ آخرکار عدلیہ کے وقار کی بحالی کے لیے ایسی عدالتی اصلاحات ضرور کریں گے جو انصاف کی تیزترین فراہمی کو یقینی بنائیں اور وہ کیسز کے غیرمعمولی التوا ء کے مسئلے پر بھی توجہ دیں گے تاکہ کیسز کے فیصلے جلد ہوسکیں اور عام آدمی کو ریلیف مل سکے۔
اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ چیف جسٹس پوری احتیاط سے اپنے عدالتی اور صوابدیدی اختیارات کواستعمال کریں گے اور عدلیہ میں درستگی کا عمل یقینی بناتے ہوئے ایک اچھی مثال قائم کریں گے۔آخر میں نئے چیف جسٹس صاحب کی کامیابی کے لیے دعاگو ہوں۔اللہ کرے کہ وہ پاکستانی عدلیہ میں ایک ایسی میراث چھوڑ کر جائیں جس میں وکلاء اور ججوں کی آنے والی نسلیںفیصلوں پر فخر کرسکیں۔
یاد رہے ۔
وقت کی آزمائش میں صرف مضبوط فیصلے ہی باقی رہتے ہیں۔ …… (ختم شد)

مزیدخبریں