ادویات کی قیمتیں اور شہریوں کوحاصل آئینی تحفظ؟

Jan 21, 2019

احمد جمال نظامی
موجودہ حکومت جو تبدیلی کی دعویدار بن کے اقتدار میں آئی تھی اس حکومت کے خلاف عوامی، صنعتی، تجارتی اور زرعی حلقوں کی طرف سے احتجاج بڑھ رہا ہے۔ مہنگائی کی شرح میں بدرجہ اتم اضافہ جاری ہے اور حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی بجائے تاحال سیاسی بیانات دینے تک محدود ہے۔ ہفتہ رفتہ کے دوران ادویات کی قیمتوں میں بھی اضافے کا معاملہ سامنے آیا جس پر عوام کی چیخیں نکل گئیں۔ پاکستان کا شمار ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے اور بدقسمتی سے آبادی  کی ایک بڑی تعداد بنیادی ضروریات زندگی میسر نہ ہونے کے باعث متعدد امراض کا شکار ہے ۔جبکہ سینئر سٹیزنز کی اکثریت کسی نہ کسی  عارضے کا شکار ہے جن میں دل، گردہ، جگر، معدہ، ہیپاٹائٹس، بلڈپریشر، شوگر  جیسے طرح طرح کے امراض شامل ہیں۔ اب جبکہ ادویات کی قیمتوں میں بلاجواز بے ڈھنگا اضافہ سامنے آیا ہے تو عوام کی طرف سے احتجاج کرتے ہوئے حکومت وقت سے ایک ہی مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ہر حال میں ادویات کی قیمتوں میں اضافے کو نا صرف روکا جائے بلکہ پہلے سے مارکیٹ میں ادویات کے بھاری بھر کم  نرخوں میں کمی لائی جائے ۔ اس حقیقت سے انکار کرنا کسی بھی ذی شعور پاکستانی کے لئے ممکن نہیں کہ پاکستان میں ادویات کا کاروبار بھی چیک اینڈ بیلنس اور کسی مربوط  نظام کے بغیر چل رہا ہے۔ مختلف فارماسیوٹیکل کمپنیاں رجسٹرڈ ہو کر اپنی ادویات تیار کرنے لگتی ہیں۔  بیشتر  ملٹی نیشنل کمپنیاںپاکستان میں ایک فارمولے اور سالٹ کی مقامی یا امپورٹڈ صورت میں اپنی ادویات تیار کرتی ہیں جن کی قیمتیں دیگر لوکل ادویات سے زیادہ ہوتی ہیں ۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ جب کوئی سفیدپوش یا غریب آدمی کسی بھی میڈیکل سٹور پر ایسی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ادویات ڈاکٹری نسخے کے مطابق طلب کرتا ہے تو ادویات کا بھاری بھرکم بل دیکھ کر بے بس ہوجاتا ہے ۔جس  پرمیڈیکل سٹور مالکان یا سیلزمین ہی انہیں اس کے متبادل اسی سالٹ کی مقامی ادویات خریدنے کا مشورہ دے دیتا ہے۔ اس طرح سے وہ شخص کم قیمت میں اپنے دل کو تسلی دیتے ہوئے مقامی کمپنی کی ادویات تو لے جاتا ہے لیکن اکثر ایسی ادویات کا مریض کی صحت پر برا اثر پڑتا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں وزیراعظم عمران خان جنہوںنے سماجی وسیاسی اور حکومت کی سطح پر رجحانات کو تبدیل کرنے کا بار بار اعلان کیا تھا وہ کم از کم صحت کے شعبے پر اتنی توجہ تو دیں کہ  امراض جن میں بلڈ پریشر، شوگر، عارضہ قلب، جگر اور معدہ وغیرہ شامل ہیں ان کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی پاکستان میں تیار کردہ ادویات پر سبسڈی دی جاسکے ۔ یہ حکومت کے لئے یہ کوئی مشکل کام نہیں اور ویسے بھی ہمارے آئین کے مطابق حکومت وقت عوام کو بنیادی ضروریات زندگی سے بڑھ کر ان کی زندگی بچانے کے لئے قومی وسائل اور سرکاری خزانے سے ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے ۔ادویات کی قیمتوں میں کمی کرنے سے اس قسم کی آئینی شق کو پورا کیا جا سکتا ہے مگر افسوس اس سلسلہ میں موجودہ حکومت بھی سابقہ حکومتوں کی طرح توجہ دینے کے لئے تیار نہیں۔سرکاری ہسپتالوں کا معاملہ  بھی یہی ہے ، ان ہسپتالوں میں آپ مفت علاج کا نعرہ  تو لگایا جاتا ہے عمل  برائے نام ہوتا ہے۔ شہبازشریف دور میں بھی اور آج بھی پنجاب سمیت تمام صوبوں میں مفت ادویات کے نام پر ایک طرف کرپشن کا بازار گرم رہتا ہے دوسری جانب مستحق شہری محرومیوں کا شکار ہیں۔  ہسپتالوں کا عملہ ایسی مفت ادویات کو مارکیٹ میں فروخت کر کے مستحق مریضوں کے حق پر ڈاکہ ڈالتا ہے ۔   ایک چھوٹا ملازم ڈیوٹی آفیسر، ڈاکٹر یا ہسپتال کے متعلقہ بڑے عملے کے بغیر ایسا جرم سرزد نہیں کر سکتا۔ ماضی میں کئی میڈیکل سٹورز سے ایسی ادویات مختلف چھاپہ مار کارروائیوں کے دوران برآمد ہو چکی ہیں جب ان ادویات کی جانچ پڑتال کی گئی تو ان پر وہ مخصوص مہر ثبت نظر آئی جس سے ثابت ہوا کہ مفت ادویات کو کرپٹ مافیا بازار میں فروخت کر جاتی ہے۔  ڈاکٹرحضرات  بھی مفت علاج کے نام پر مفت ادویات کا چرچا کرتے نہیں تھکتے ۔  سرکاری ہسپتالوں میں بیٹھے ڈاکٹرز مفت ادویات مریضوں کو فراہم کرنے کی بجائے انہیں مختلف ملٹی نیشنل کمپنیز کی ایسی ادویات تجویز کرتے ہیں جن کا نام مفت ادویات کی فہرست میں سرے سے موجود ہی نہیں ہوتا اور پھر غریب عوام کو پرائیویٹ میڈیکل سٹورز سے ایسی مہنگی دوائیاں خریدنی پڑتی ہیں جس کی وہ استطاعت نہیں رکھتے۔ لہٰذا موجودہ حکومت جو آئندہ 23جنوری کو منی بجٹ بھی پیش کرنے جا رہی ہے ۔اس پر سیاسی حلقوں اور معیشت سے متعلقہ حلقوں کی طرف سے مختلف قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ کئی حلقے حکومت پر تنقید بھی کر رہے ہیں جبکہ حکومت کا موقف ہے کہ سابقہ حکومت نے اپنا آخری اور چھٹا بجٹ پیش کر کے سیاسی طور پر ڈرامہ رچایا جس کے لئے موجودہ حکومت مجبور ہو کر منی بجٹ پیش کر رہی ہے۔ الزام برائے الزام  سے کیا حاصل اس بجٹ میں وزیرخزانہ اسد عمر کو چاہیے کہ جب انہیں خود  موقع ملا ہے وہ مہنگائی کی شرح پر قابو پانے کے لئے دیرپا پالیسیوں کو شامل کریں ۔ عوام کو ادویات کے لئے زیادہ سے زیادہ سبسڈی فراہم کرنے کی پالیسی کو منی بجٹ کا حصہ بنائیں،بالخصوص ادویات کی قیمتوں میں کمی لائی جائے۔ وزیرخزانہ دو سے تین مرتبہ مختلف تقاریب کے دوران بیان دے چکے ہیں کہ منی بجٹ میں عوام پر کوئی نیا بوجھ نہیں ڈالا جا رہا، جبکہ عوام میں یہ خدشات بھی پائے جاتے ہیں کہ مہنگائی میں مزید اضافے کے لئے تیاری کی جارہی ہے۔

مزیدخبریں