جنرل پرویز مشرف کے’’مارشلائی‘‘ دور حکومت میں پیشی کے موقع پر احتساب عدالت کے احاطے میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے سربراہ آصف علی زرداری کی بیٹھک ہوا کرتی تھی۔ پیشی کے بعد آصف علی زرداری پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور صحافیوں کے ساتھ بیٹھ کر چائے پیتے اور گپ شپ لگاتے تھے۔ حاجی نواز کھوکھر کے بھائی امتیاز تاجی کھوکھر چائے کا بندوبست کرتے تھے۔ احتساب عدالت کے احاطے کی ملاقاتوں میں آصف علی زرداری سے ’’دوستی ‘‘ ہو گئی۔ میرا ان کی جماعت سے کوئی لینا دینا نہیں تھا لیکن ان سے اس حد تک بے تکلفی ہو گئی کہ وہ مجھے نواز کہہ کر پکارتے۔ وہ مجھے 2002ء کے انتخابات میں اعجاز الحق کے خلاف پیپلز پارٹی کا ٹکٹ دینا چاہتے تھے میں نے بڑی مشکل سے جان چھڑائی۔ عام انتخابات کے انعقاد تک میں احتساب عدالت نہ آیا ۔ جب انتخابات کے بعد احتساب عدالت کے احاطے میں آصف علی زرداری کی’’ عدالت‘‘ میں حاضری دی تو طویل ’’غیر حاضری ‘‘ پر ناراضی کا اظہار کیا اور پھر مجھے آئندہ انتخاب میں راولپنڈی کے ’’ناکام ‘‘ نجومی کا مقابلہ پر آمادہ کرتے رہے یہ الگ بات ہے میں نے میاں نواز شریف سے مسلم لیگ (ن) کے ایک کارکن کو پارٹی ٹکٹ دینے کی سفارش کی تو انہوں نے کہا کہ اپنے ٹکٹ کی بات کیوں نہیں کرتے چونکہ میں سیاست میں نہیں آنا چاہتا تھا لہذا معذرت کر لی ۔ احتساب عدالت کے احاطہ میں آصف علی زرداری سے ہونے والی ملاقاتوں کو ’’خفیہ والے ‘‘ شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ میں جب آصف علی زرداری سے ملاقات کے لئے آتا تو خفیہ والوں کی ’’ سرگوشیاں شروع ہو جاتیں کہ میں آصف علی زرداری کے لئے میاں نواز شریف کا کوئی ’’پیغام ‘‘ لے کر آیا ہوں حالانکہ اس ’’مفروضے ‘‘میں کوئی حقیقت نہیں تھی ۔ میں تو محض آصف علی زرداری سے اظہار یک جہتی کے لئے احتساب عدالت آتا تھا۔ ان دنوں ممتازمسلم لیگی رہنما سینیٹر چوہدری تنویر خان بھی نواز شریف سے ’’ وفاداری‘‘ نبھانے کی سزا بھگتنے کے لئے احتساب عدالت میں’’ پیشیاں‘‘ بھگت رہے تھے ۔ چوہدری تنویر خان بیگم کلثوم نواز کی میزبانی کرنے کے ’’جرم ‘‘ میں جنرل پرویز مشرف کے ’’عتاب‘‘ کا شکار ہوئے تھے میں نے چوہدری تنویر خان کو جرات و استقامت سے جیل کاٹتے دیکھا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ چوہدری تنویر جیل میں ہوں یا باہر جیل یاترا کرنے والے سیاسی دوستوں کے لئے اپنے گھر سے کھانا تیار کر کے بھجواتے تھے اس طرح انہوں نے جیل یاترا کرنے والے سیاسی دوستوں کا خیال رکھنے کی اعلیٰ روایات قائم کیں ۔ چوہدری تنویر کی رہائش گاہ جنرل پرویز مشرف ہائوس کے قریب تھی اس لئے شریف خاندان کے بعد سب سے پہلے چوہدری تنویر خان کو نام نہاد احتساب کی چکی میں پیسنے کا حکم جاری کیا گیا ۔ احتساب عدالت کے احاطے میں آصف علی زرداری اور چوہدری تنویر خان سے ہونے والی ملاقاتوں کا موضوع گفتگو بھی میاں نواز شریف ہوا کرتے تھے ۔ آصف علی زرداری جو پچھلے کئی سالوں سے جیل کاٹ رہے تھے سے ملاقاتوں نے ’’دوستی ‘‘ کی شکل اختیار کر لی تھی ۔ آصف علی زرداری نے ایک ملاقات میں رازداری میں کہا کہ’’ میاں نواز شریف نے بیرون ملک جانے کا صحیح فیصلہ کیا ہے اگر وہ اٹک قلعہ میں رہتے تو انہیں مروا دیا جاتا‘‘ جنر ل پرویز مشرف کی ’’مارشلائی ‘‘ حکومت میں میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو جلاوطنی کی زندگی گذارنے پر مجبور کر دیا گیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت زیر عتاب تھی جنرل پرویز مشرف دونوں رہنمائوں کو کسی صورت پاکستان واپس نہیں آنے دے
رہے تھے وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر یہ دونوں لیڈر پاکستان واپس آگئے تو ان کی پاکستان میں کوئی جگہ نہیں ہو گی ۔ میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی جلاوطنی ’’میثاق جمہوریت‘‘ کا باعث بنی 2006ء میں پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے جہاں ماضی کی غلطیوں پر قوم سے معافی مانگی وہاں انہوں نے ایک جمہوری پاکستان کے قیام کے لئے جدو جہد کرنے کے عزم کا اظہار کیا ۔ جنرل پرویز مشرف کے جابرانہ دور کے خاتمہ میں اس ’’میثاق جمہوریت‘‘ کا بڑا کر دار ہے جو میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے لندن میں کیا ۔ یہ دونوں جماعتوں کا اتحاد ہی تھاجس نے جنرل پرویز مشرف کے’’ مارشلائی‘‘ دور کا خاتمہ کیا ۔ دونوں جماعتوں کے درمیان نظریاتی اختلاف کی وجہ سے زیادہ دیر تک دوستی چل نہ سکی ۔2008ء ،2013ء اور 2018ء کے انتخابات میں دونوں جماعتوں کے درمیان خلیج بڑھتی گئی لیکن 2008ء کے انتخابات کے بعد کچھ دنوں کے لئے مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی کی حکومت میں بیٹھی رہی میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان رومانس زیادہ دن نہیں چلا ۔ سرد گرم سیاست میں ایسے مقامات بھی آئے دونوں جماعتوں کی قیادت ایک دوسرے کا سرپھٹول کرتی رہی بعض اوقات ناراضی اتنی بڑھی کہ دونوں ایک دوسرے سے مل بیٹھنے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے ۔ میاں نواز شریف ’’گرم پانیوں ‘‘ میں ہوں تو آصف علی زرداری کنارے پر کھڑے ہو کر تماشا دیکھتے رہتے اسی طرح جب آصف علی زرداری کو اپنے انداز سیاست پر ملک چھوڑنا پڑا تو مسلم لیگ (ن) نے ان کی کوئی مدد نہ کی بلکہ ان سے منہ موڑ لیا دونوں کے درمیان فاصلوں سے کبھی پاکستان تحریک انصاف نے فائدہ اٹھا یا ، کبھی پاکستان پیپلز پارٹی نے ایسٹیبلشمنٹ کے قریب ہونے کی کوشش کی لیکن جب آصف علی زرداری کی ’’طنابیں‘‘ کھینچی جانے لگیں تو انہوں نے پاکستان مسلم لیگ(ن) کے قریب تر ہونے کا فیصلہ کر لیا ۔ عام انتخابات کے بعد ایم ایم اے کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے درمیان ملاقات کرانے کی بڑی کوشش کی لیکن انہیں کامیابی نہیں ہوئی لیکن انہوں نے کوششیں ترک نہیں کیں ۔ ایک مرحلے پر انہوں نے مایوس ہو کر یہاں تک کہہ دیا کہ کیا ہم جیل میں جا کر ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا میاں نواز شریف، آصف علی زرداری اور میاں شہباز شریف ایک ہی وقت میں پارلیمنٹ ہائوس کی حدود میں موجود ہونے کے باوجود مل بیٹھ نہ سکے ۔ میاں نواز شریف تو دوسری بار جیل چلے گئے آصف علی زرداری کی میاں نواز شریف سے ملاقات نہ ہو سکی ۔ قومی اسمبلی کا ساتواں سیشن شروع ہوا تو آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری بھی اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کا ایجنڈا لے کر پارلیمنٹ ہائوس پہنچ گئے دونوں جماعتوں کی قیادت کے درمیان بالواسطہ رابطوں کا نتیجہ تھا کہ دو گھنٹے کی نشست میں اتحاد قائم ہو گیا ۔ قومی اسمبلی کے ایوان میں آصف علی زرداری اور میاں شہباز شریف کے درمیان’’ پرجوش مصافحہ اور راز ونیاز ‘‘ اگلے روز اپوزیشن گرینڈ الائنس کا باعث بن گیا۔ آصف علی زرداری ، میاں شہباز شریف کی ماضی کی تلخ نوائی کو فراموش کر کے باہم شیرو شکر ہو گئے۔ آصف علی زرداری اور میاں شہباز شریف کے درمیان’’رومانس‘‘ کے آغاز نے وزیر اعظم عمران خان کو سرپرائز دیا۔ پوری حکومت اتحاد کے قیام پر حیران وششدر نظر آتی ہے اسی لئے وزیر اعظم سمیت پوری حکومت نے اپنی توپوں کا رخ اپوزیشن کی طرف کر دیا ہے اور اسے ’’کرپشن بچائو اتحاد‘‘ قرار دے کر اپنے دل کو تسلی دے رہی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف محمد شہبازشریف کی دعوت پرپارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعتوں کے سربراہان اور قائدین کے غیر معمولی اجلاس میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا منفرد اجلاس تھا جس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) ، پاکستان پیپلز پارٹی ، ایم ایم اے اور عوامی نیشنل پارٹی کے قائدین نے شرکت کی ہی تھی لیکن اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) جس نے وزیر اعظم کے انتخاب میں عمران خان کو ووٹ دیا تھا بھی شریک ہوئی اسی طرح پشتون تحفظ موومنٹ کی قیادت اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے کے لئے اس حد مضطرب دکھائی کہ اس اجلاس میں نہ بلائے جانے پر گلہ کیا ۔ اپوزیشن گرینڈ الائنس نے سب سے پہلے 10رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے جو وزیر اعظم عمران خان کی نا،مزد کردہ دو رکنی کمیٹی جو شاہ محمود قریشی اور پرویز خٹک پر مشتمل ہے سے تمام ایشوز پر مذاکرات کرے گی۔ ماضی میں فوجی عدالتوں سے متعلق آئینی ترمیم کی منظوری میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف پوری اپوزیشن کو بلا کر اعتماد میں لیتے رہے ہیں لیکن اب وزیراعظم عمران خان اور اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کے درمیان ورکنگ ریلیشنز نہ ہونے کے باعث وزیر اعظم نے دو رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے جو اپوزیشن لیڈر سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے لیکن اپوزیشن لیڈر نے ملاقات سے معذوری کا اظہار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ حکومتی کمیٹی سے اپوزیشن کی کمیٹی ہی مذاکرات کرے گی ، اپوزیشن نے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے لئے آئینی ترمیم پر مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کے غیر معمولی اجلاس میں آصف علی زرداری کا حکومت کے بارے میں طرز عمل خاصا جارحانہ تھا، انھوں نے جہاں حکومت پر دبائو بڑھانے پر زور دیا ہے ۔ وہاں انہوں نے سینیٹ کا ’’کنٹرول‘‘ حاصل کرنے کی معنی خیزبات کی ہے ۔ سینیٹ میں آصف علی زرداری اور عمران خان کی مشترکہ کوششوں سے محمد صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنایا گیا تھا اب آصف علی زرداری نے تنگ آمد بجنگ آمد نیا چیئرمین سینیٹ لانے کا اشارہ دے دیا ہے سردست اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں نے وفاقی حکومت گرانے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا اس کی وجہ یہ ہے اپوزیشن حکومت کو مزید غلطیاں کرنے کا موقع دینا چاہتی ہے تاہم پارلیمنٹ کے اندر دبائو بڑھانے کے لئے اس کا’’ گھیرائو ‘‘ جاری رکھے گی ۔ آصف علی زرداری نے 23 جنوری2019کو پیش کئے جانے والے’’ منی بجٹ ‘‘کی بھرپور مخالفت اعلان کر دیا ہے وہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی مخالفت بھی کر رہے ہیں خواجہ سعد رفیق نے میثاق جمہوریت کی طرز پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نیا معاہدہ کرنے کی تجویز پیش کر دی ہے جس کا تاحال حکومت کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ موجودہ معاشی بحران کی وجہ اقتصادی صورتحال نہیں بلکہ حکومت کی ناقص کار کردگی ہے ،سابق صدر آصف علی زرداری نے ’’ٹھنڈے موسم‘‘ کا بین السطور ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ ابھی’’ موسم ٹھنڈا‘‘ ہے اسے گزرنے دیا جائے،موسم بہار شروع ہونے پر عوام کو متحرک کیا جائے،تب عوام سڑکوں پر آنے کیلئے پوری طرح تیار ہوں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے میاں شہباز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان ’’رومانس‘‘ ملکی سیاست میں کیا تبدیلی لاتا ہے اس کا جواب آنے والے دنوں میں ملے گا ۔
شہباز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان ’’رومانس‘‘
Jan 21, 2019