اسلام آباد (سٹاف رپورٹر+ ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے کے لئے امریکہ سمیت تمام فریقین کے ساتھ مل کر کام جاری رکھیں گے، علاقائی تعاون کے لئے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی ضرورت ہے۔ اتوار کو یہاں جاری ہونے والی پریس ریلیز کے مطابق سینئر یو ایس ریپبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی۔ سینیٹر گراہم دوطرفہ تعلقات اور خطے کی سلامتی کی صورتحال کے جائزے کے لئے پاکستان کے دورے پر ہیں۔ سینیٹر گراہم نے افغانستان میں سیاسی حل تلاش کرنے کے لئے حالیہ جاری کوششوں میں پاکستان کے مثبت کردار کو سراہا۔ انہوں نے معیشت کی بہتری، بدعنوانی کے خاتمے اور پاکستانی عوام کے لئے ملازمتوں کے مواقع تخلیق کرنے کے لئے وزیراعظم عمران خان کے وژن کو سراہا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے وزیراعظم کی جانب سے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے کی گئی کوششوں کو بھی سراہا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ان کی اقتصادی ٹیم سرمایہ کاروں کے لئے کاروبار دوست پالیسیوں کے لئے اقدامات اٹھا رہی ہے، امریکی کمپنیاں بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تاریخی روابط کے حوالے سے دونوں اطراف نے باہمی اقتصادی تعاون بالخصوص تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبہ میں تعاون اور تعلقات کو مزید مستحکم بنانے پر اتفاق کیا۔ ملاقات کے بعد امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم نے تجویز پیش کی ہے کہ صدر امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ فوری طور پر پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کریں یا کم از کم ٹیلیفون پر ضرور بات کر لیں اور ان کی ملاقات مین افغان سدر اشرف غنی بھی شامل ہو سکیں تو افغان امن عمل کیلئے ایک سٹرٹیجک ویژن تشکیل پا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن کیلئے پہلی بار ایسا موقع پیدا ہوا ہے جس سے لازماً استفادہ کرنا چاہیے۔ پاکستان کی سویلین اور عسکری قیادت کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد اتوار کی شام امریکی سفارت خانہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے پاکستانی فوج اور وزیر اعظم عمران خان کی شاندار الفاظ میں تعریف کی اور کہا کہ وزیراعظم عمران خان سے ملکر بہت متاثر ہوا ہوں واپس جا کر صدر ٹرمپ کو کہونگا کہ وزیراعظم خان سے جلد ملاقات کریں کیونکہ دونوں ایک جیسی شخصیات کے مالک ہیں اور دونوں کے خیالات بہت ملتے جلتے ہیں۔ اس لئے دونوں میں خوب نبھے گی، سینیٹر گراہم نے کہا کہ وزیراعظم خان کو ماضی میں طالبان سے مذاکرات کرنے کے مو¿قف پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا جبکہ انکا مو¿قف بالکل درست تھا۔ علاقائی امن کے لیے صدر ٹرمپ صدر اشرف غنی اور وزیراعظم عمران خان کی ملاقات ایک اہم پیش رفت ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی طرف سے پاک افغان سرحد پر باڑ لگائی جا رہی ہے ایسا افغانستان کی جانب سے بھی کیا جانا چاہیے تھا افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے پاکستان کا کردار اہم ہے تاہم امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان اسلام آباد میں مذاکرات بارے کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا۔ سینیٹر گراہم نے کہا کہ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف بہت قربانیاں دی ہیں اور اب قبائلی علاقوں میں پاکستان معاشی ترقی اور امن کے لئے کام کر رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی سوچ واضح ہے بدقسمتی سے دونوں ملکوں کے درمیان عدمِ اعتماد کی فضا رہی ہے۔ پاکستان امریکہ کو قابلِ اعتماد شراکت دار کے طور پر لے گا تو تعلقات بہتری سے آگے بڑھیں گے۔ دہشتگردی مشترکہ خطرہ ہے اور اس کے لئے مشترکہ آپریشن گیم چینجر ہو گا۔ امریکی سینیٹر گراہم نے کہا کہ بغیر امن و استحکام افغانستان سے انخلاءنہیں ہونا چاہیے، افغانستان کے حوالے سے پاکستان نے جو کام گذشتہ اٹھارہ مہینوں میں کیا وہ اٹھارہ سالوں میں نہیں کیا۔ پاکستان کی امداد اس لئے کم کی کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ جو کام ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا، پاکستان سے متعلق بار بار پالیسی بدلنا ہماری غلطی ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ طالبان طاقت کے زور پر افغانستان کو حاصل نہیں کر سکتے۔ نئی افغان نسل طالبان کے تاریک دور میںواپس نہیں جانا چاہتی۔ طالبان کو ہتھیار رکھنے ہوں گے اور افغان دستور کو تسلیم کرنا ہو گا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے محض ٹریلین ڈالرز کا خرچہ نہیں کیا بلکہ کئی اور مدوں میں بھاری قیمت چکائی ہے۔ ہم نہیں چاہیں گے کہ ایک اور نائن الیون رونما ہو۔ طالبان بھی اب القاعدہ اور داعش کے حامی نہیں رہے۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج نے سابق فاٹا میں متاثرم کن کام کیا ہے۔ دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کی گئی ہیں۔ پاک فوج اور قوم کی قربانیوں کو عالمی میڈیا میں درست انداز میں اجاگر نہیں کیا گیا۔ پاکستان اہم ملک ہے جو سلامتی اور فوجی اعتبار سے خطہ پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان اعتماد کی سطح تباہ کن ہے۔ سٹریٹجک تعلقات قائم ہونے کی صورت میں دونوں ملکوں کے درمیان آزادانہ تجارت کا معاہدہ بھی ہو سکتا ہے اور دیگر امور بھی طے پا سکتے ہیں۔ انہوں نے عمران خان کو تبدیلی کا استعارہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو پاکستان میں تبدیلی کے بعد کی حکومت سے بات کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان امریکہ کیلئے نہایت پرکشش منڈی ہے جہاں امریکی مصنوعات بک سکتی ہیں۔ ہمیں امن درکار ہے کیونکہ پاکستان اور افغانستان کی وجہ سے امریکی ٹیکس گزاروں پر بوجھ پڑا ہے۔ ہماری تمام رپورٹیں بتا رہی ہیں کہ پاک فوج پہلے سے بہت اچھا کام کر رہی ہے۔ پیشرفت ہو رہی ہے۔ دہشت گردوں کی دراندازی روک دی گئی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ امریکہ استحکام کی ایک قوت ہے جو ابھی افغانستان میں موجود رہے۔ پاکستان کے ساتھ عبوری سے سٹرٹیجک تعلقات کی طرف جانا ہوگا، ہم چاہتے ہیں افغانستان اور پاکستان کے لئے معاشی ترقی کے مواقع پیدا ہوں، صدر ٹرمپ کی ٹویٹس مسائل پیدا کرتے ہیں، جنرل باجوہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں سنجیدہ ہیں۔ آئی ایم ایف کے قرض سے پاکستان کی معیشت بہتر ہوگی، عمران خان کی موجودگی میں امریکہ کے پاس پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کا اچھا موقع ہے۔ داعش اور القاعدہ کے خلاف خطے میں امریکی موجودگی یقینی بنائیں گے، مزید برآں امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم نے وزارت خارجہ میں وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی، دوران ملاقات دو طرفہ تعلقات، افغانستان کی صورتحال سمیت اہم علاقائی اور عالمی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ علاوہ ازیں امریکی رکن کانگریس الیگزینڈر الگرین نے وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ کام کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان میں لوگوں کیلئے کچھ کرنے کا عزم ہے۔ ڈیموکریٹ رکن کانگریس الگرین نے وزیر اعظم عمران خان کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ کام کرنے کا خواہش مند ہوں۔ ڈیموکریٹ رکن کانگریس نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ میں روایتی طور پر اچھے تعلقات ہیں، اس وقت پاکستان میں نئی قیادت ہے۔ وزیر اعظم عمران خان ایک عظیم کرکٹر ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عمران خان نے ہسپتال بھی بنایا۔ الیگزینڈر الگرین نے کہا ایک دوسرے سے دور ہونا دونوں ممالک کے مفاد میں نہیں۔ کاروباری، عوامی سطح پر تعلقات سے دونوں ممالک قریب آسکتے ہیں۔ ڈیموکریٹ رکن کانگریس کا مزید کہنا تھا کہ دونوں ممالک میں تعلقات کی بہتری کےلئے کانگریس میں کافی محنت کرنا پڑے گی۔ عمران خان قوم کا درد رکھتے ہیں۔ عمران خان کے امریکا میں بہت سے دوست اور خیرخواہ ہیں۔ عمران خان جمہوری اقدار پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم کانگریس میں پاکستان کے کیس کو مضبوط کریں گے۔
ریپبلکن سینیٹر