لاہور (نامہ نگار+خصوصی نامہ نگار) سانحہ ماڈل ٹاو¿ن کی ازسر نو تحقےقات کے لئے بنائی گئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناءاللہ کو آج بیان قلمبند کرانے کے لیے سمن جاری کردئےے ہےں۔ تفصےلات کے مطابق سانحہ ماڈل ٹاو¿ن کی ازسر نو تحقےقات کے لئے نئی جے آئی ٹی سپریم کورٹ کے احکامات پر بنی ہے۔ چائلڈ پروٹےکشن بےورو کی عمارت مےں قائم جے آئی ٹی کیمپ آفس میں بیان قلمبند کروانے کے لیے بنایا ہے۔ جے آئی ٹی ان سے سانحہ ماڈل ٹاو¿ن کے بارے میں سوالات کرے گی۔ پنجاب پولیس کے ڈی ایس پی اقبال حسین شاہ جو اس جے آئی ٹی کے انویسٹی گیشن آفیسر ہےں ان کی جانب سے رانا ثناءاللہ کوطلبی سمن جاری کےا گےا ہے۔ پانچ رکنی جے آئی ٹی کے سربراہ آئی جی موٹر وے اے ڈی خواجہ ہےں۔ ادارہ منہاج القرآن کے ایڈمنسٹریٹر اور سانحہ ماڈل ٹا¶ن کیس میں ایف آئی آر نمبر 696 کے مدعی جواد حامد نے کہا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹا¶ن کے نامزد ملزمان سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناءاللہ اور اس وقت کے ڈی آئی جی آپریشن رانا عبدالجبار کو سپریم کورٹ کے حکم پر بننے والی جے آئی ٹی نے طلب کیا ہے، رانا ثناءاللہ کا دامن صاف ہے تو وہ جے آئی ٹی میں پیش ہو کر اپنا مو¿قف دیں، جے آئی ٹی کو غیر قانونی کہنا سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے فیصلے کی توہین ہے، پیش ہونے سے انکار اعتراف جرم ہے،سانحہ ماڈل ٹا¶ن کے ملزموں کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں۔ سابق حکمران چونکہ سانحہ ماڈل ٹا¶ن میں براہ راست ملوث تھے اس لئے انہوں نے چشم دید گواہان کے بیانات قلمبند نہیں ہونے دیئے تھے اور یکطرفہ چالان اے ٹی سی میں پیش کیا تھا جن دنوں جے آئی ٹی تحقیقات کر رہی تھی ان دنوں شہبازشریف اور رانا ثنا اللہ کے حکم پر پولیس نے پنجاب بھر میں عوامی تحریک اور منہاج القرآن کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈا¶ن شروع کر رکھا تھاتا کہ کوئی چشم دید گواہ گواہی کے لئے پیش نہ ہو سکے۔ قاتل جتنا مرضی شور مچا لیں ان کے جرم کی گواہی سانحہ کے شواہد خود دیں گے۔سینئر وکیل اشتیاق چودھری ایڈووکیٹ نے کہا کہ جے آئی ٹی تحقیقات کے دوران کسی بھی کیس سے متعلقہ شخص کو ناصرف طلب کر سکتی ہے بلکہ گرفتار بھی کر سکتی ہے۔ بطور وزیر قانون 10 سال پنجاب میں کام کرنے والے رانا ثناءاللہ کی طرف سے جے آئی ٹی کو غیر قانونی کہنا ناصرف سپریم کورٹ کی توہین ہے بلکہ آئین پاکستان کے تحت بننے والے قوانین کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔
سانحہ ماڈل ٹاﺅن