زکوٰۃ اداکرنے کے آداب(۳)

عمدہ مال دیا جائے: زکوٰۃ صدقات اداکرتے وقت ردی اورگھٹیا مال دینا تقاضائے ایمان کے منافی ہے کیونکہ دراصل انسان کا اپنا مال وہی ہے جسے وہ راہ خدا میں لٹادیتا ہے ایک مرتبہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)! ایک بکری ذبح کی گئی تھی وہ میںنے ساری راہ خدا میں تقسیم کردی صرف اس کے شانے کا گوشت باقی ہے ،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو راہ خدا میںدے دی وہ ساری باقی ہے اورجو شانے کا گوشت اپنے لیے رکھا ہے وہ باقی نہیں ہے یعنی جو راہ خدا میں دے دیا دراصل بندے کا مال وہی ہوتا ہے۔جب یہ نظریہ پختگی اختیار کرلے تو کیسے ممکن ہے کہ بندہ جو مال اپنی اصل زندگی کیلئے بھیجے وہ ناقص اورردی ہو اسی لیے تو فرمایا گیا:’’اور(راہ خدا میں )وہ مال خرچ کرنے کا ارادہ بھی نہ کرو جس کو راہ خدا میں تو خرچ کرنے پر آمادہ ہوجائو لیکن اگر وہی مال تمہیں لینا پڑے تو بغیر آنکھیں بند کیے اس کونہ لو خوب جان لو کہ اللہ بے نیاز حمد کیا ہوا ہے۔‘‘(بقرہ: ۲۶۷)
اسی لیے تو نیکی پانے کیلئے اپنی محبوب چیز خرچ کرنے کی شرط لگائی گئی:’’تم ہر گز نیکی کونہ پہنچ سکو گے جب تک (راہ خدا میں )اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو۔‘‘(آل عمران :۹۲)
حلال مال دیا جائے: صدقہ وزکوٰۃ حلال کمائی سے ہی دینا چاہیے کیونکہ :ان اللّٰہ طیب لایقبل الاطیبا (الحدیث)’’اللہ پاک ہے اورپاکیزہ چیزوں کو ہی قبول فرماتا ہے ‘‘حرام کمائی سے ثواب کی نیت سے صدقہ کرنا باعث ثواب تو کجاباعث گرفت ہے ۔ظاہر ہے کہ جب حرام مال اللہ تعالیٰ کی نظر میں ایک انتہائی مبغوض شی ہے تو اس میں سے صدقہ کرنا ایک مضحکہ خیز عمل ہے اوراس میں حرام کمائی کی ایک مذمت بھی ہے کہ جب اس سے دیا ہوا صدقہ بھی منہ پے ماردیا جاتا ہے تو اس کی مذمت میں کتنا شک باقی رہ جاتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اے ایمان والو! خدا کی راہ میں اپنی پاک کمائی میں سے خرچ کرو۔‘‘(بقرہ : ۲۶۷)
احساس برتری سے بچا جائے:جب انسان کسی سے کوئی بھلائی کرتا ہے یا کسی کو صدقہ دیتا ہے تو عموماًاس کے دل میں ایک احساس برتری آسکتا ہے کہ میںنے اس پر بڑا احسان کیا ہے حالانکہ یہ چیز ایمانی روح کے منافی ہے کیونکہ جب مال اسے خدا نے ہی دیا ہے تو اس وقت تو اس کے بدن کا انگ انگ خدا کے حضور عاجزی کا پیکر بننا چاہیے تھا کہ اس نے مجھے دینے والا بنایا نہ کہ اسے کسی تکبر میں مبتلا ہونا چاہیے تھا۔
طلب شکر سے بے نیازی : صدقہ کاکما ل یہ ہے کہ آدمی کو خود شدید احتیاج ہو لیکن محبت الٰہی کی وارفتگی میں وہ اپنی ضرورتوں کو پس پشت ڈال کر راہ خدا میں لٹاتا ہی چلا جائے، اوررضائے الٰہی کے حصول کا جذبہ اس قدر پختہ اورراسخ ہوجائے کہ وہ صدقہ والو ں سے کلمات تشکر کی بھی امید نہ رکھے بلکہ ایسی باتوں کو وہ حصول مقصد کی راہ میں رکاوٹ سمجھے ۔(روحِ عبادت)

ای پیپر دی نیشن