بھارت خطرناک ترین ممالک کی فہرست میں پانچویں نمبر پر‘ امریکی سینیٹر کا کشمیر ایشو پر قرارداد لانے کا عزم
عالمی اداروں نے بھارت کو رہنے کے لیے خطرناک ملک قرار دے دیا، اس حوالے سے عالمی ادارے سپیکٹیٹر انڈیکس نے2019ء کی خطرناک ممالک کی فہرست جاری کی ہے۔ فہرست کے مطابق برازیل پہلے، جنوبی افریقہ دوسرے جبکہ بھارت پانچویں نمبر پر ہے جہاں لوگوں کو رہنے کیلئے خطرات کا سامنا رہتا ہے۔ انسانی حقوق، عوام کے استحصال، بچوں اور خواتین سے زیادتی کے واقعات انڈیکس کا حصہ ہیں۔حقوق غصب کرنا، آزادی اظہار پر پابندی اور بنیادی حقوق سے محروم رکھنا بھی اس میں شامل ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں غاصبانہ قانون نافذ اور بدترین لاک ڈائون کر رکھا ہے۔نیا قانون شہریت ہندوتوا کی ترویج اور اقلیتوں کے حقوق غصب کرنے کا باعث ہے، اس کے علاوہ سپیکٹیٹر انڈیکس میں تمام معاشرتی پہلوئوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کشمیر میں ریاستی دہشت گردی‘ گلی کوچوں میں آر ایس ایس کی غنڈہ گردی کے کالے قوانین اور پالیسیوں کے باعث بھارت میں طبقاتی کشمکش عروج پر پہنچ گئی۔ شہر شہر‘ گلی گلی اداروں سمیت ہر جگہ محروم طبقہ حقوق کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اقلیتوں کیلئے زندہ رہنا انتہائی مشکل ہو گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا محسوس ہو رہا ہے خطرناک ترین ملکوں کی فہرست میں بھارت ٹاپ پر آجائے گا۔دریں اثناء وزیراعظم عمران خان نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کو بھارت کی طرف سے جعلی حملہ کا خطرہ لاحق ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ بھارت کی طرف سے جنگ بندی لکیر کے اس پار نہتے شہریوں کے بہیمانہ قتل پر پاکستان کیلئے خاموش رہنا مشکل ہو جائے گا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایک طرف مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے کشمیریوں کا محاصرہ جاری ہے تو دوسری جانب کنٹرول لائن پر بھی اس نے فوجی اشتعال انگیزیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ علاوہ ازیں بھارت کے نئے آرمی چیف نے حال ہی میں آزاد کشمیر پر قبضے کا بھی بیان دیا جس پر پاکستان کے دفتر خارجہ نے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا۔بھارت کی طرف سے پاکستان کیخلاف جارحیت کا ارتکاب بھی ہوتارہا ہے۔ اسکے متعدد ڈرون گرائے گئے اور دو فائٹر گرا کر ایک پائلٹ ابھی نندن کو زندہ گرفتار کرکے بھارت کی دفاعی صلاحیت کا پول بھی کھول دیا تھا۔ بھارت نے اڑی حملوں کا پاکستان پر جھوٹا الزام لگا کر بدلہ لینے کا اعلان کردیا۔ چند دن بعد جعلی سرجیکل سٹرائیک کا ڈرامہ رچا کر اس نے اپنے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارتی اپوزیشن نے مودی سرکار سے ایسی سرجیکل سٹرائیک کے ثبوت پیش کرنے کو کہا تو بھارتی فوج اور مودی حکومت کے پاس آئیں بائیں شائیں کے سوا کہنے کو کچھ نہیں تھا۔ 27 فروری کو بھارتی فائٹر مار گرائے جانے سے ثابت ہوتا ہے کہ پاک افواج الرٹ ہیں اور اپنے علاقے میں دشمن کی چڑیا کو بھی پر مارنے کی جرأت نہیں ہو سکتی چہ جائیکہ بھارتی بزدل فوج سرجیکل سٹرائیک کرتی اور محفوظ واپس چلی جاتی۔
27 فروری کے پاک فوج کے اقدام نے بھارت کی سرجیکل سٹرائیک کے جھوٹ پر بھی مہر تصدیق ثبت کر دی مگر مکار اور عیار بنیا اپنی فطرت سے مجبور پاکستان کیخلاف سازشوں سے باز نہیں رہ سکتا۔ جھوٹ اسکی سرشت میں شامل ہے۔ پلوامہ‘ پٹھانکوٹ‘ ممبئی اور سمجھوتہ ایکسپریس جیسے حملوں کے ڈرامے رچا کر پاکستان کو دنیا میں بدنام کرتا رہا ہے۔ اندرونی حالات خراب ہوتے ہیں تو انہیں دنیا سے پوشیدہ رکھنے کیلئے وہ ظلم کا ضابطہ آزماتا ہے۔ دنیا ’’توئے لعنت‘‘ کرتی ہے تو اپنے مظالم سے دنیا کی توجہ ہٹانے کیلئے پاکستان کیخلاف محاذ کھول دیتا ہے۔ اب بھی وہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر کشمیریوں اور شہریت بل کیخلاف اقلیتوں کے سراپا احتجاج ہونے پر ظلم کا بازار گرم کئے ہوئے ہے۔ عالمی برادری اس حوالے سے بھارت کو مظالم سے باز رہنے کو کہہ رہی ہے۔ دنیا میں بھارت کیخلاف فضا ہموار ہو رہی ہے۔ بھارت کو عالمی برادری کے شدید ردعمل کا سامنا تو ہے ہی اب وہ پابندیوں کی زد میں بھی آسکتا ہے۔ وہ عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے اور جا بھی رہا ہے۔ وہ ہر صورت پاکستان کو دنیا میں جارح باور کرانا چاہتا ہے۔ اس نے اسی لئے جنگی ماحول بنا دیا ہے۔ مقبوضہ وادی کی صورتحال کنٹرول میں نہیں‘ کرفیو کو 6 ماہ ہونیوالے ہیں‘ دوسری طرف شہریت قانون کیخلاف بھارت کے اندر بغاوت کی سی کیفیت ہے۔ حالات قابو سے باہر ہوچکے ہیں۔ عالمی سطح پر حق خودارادیت اور اقلیتوں کو یکساں حقوق کے حوالے سے مطالبات میں زور آرہا ہے۔ بھارت اندرونی اور بیرونی دبائو سے نکلنے کیلئے پاکستان کیخلاف حسب عادت کوئی بھی مہم جوئی کرسکتا ہے۔ ان خدشات سے وزیراعظم اور وزیر خارجہ دنیا کو باربار آگاہ کررہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر ایسے ہی خدشے کا اظہار کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار بھی کیا ہے کہ پاکستان کیلئے ایل او سی کی دوسری طرف سے کوئی شرارت ہوسکتی ہے جبکہ بھارت کی طرف سے بے جا گولہ باری سے اپنے شہریوں کے قتل پر خاموش رہنا مشکل ہے۔ عالمی برادری کے ساتھ ساتھ بھارت کو بھی واضح طور پر یہ پیغام مل گیا اور سمجھ میں بھی آگیا ہوگا کہ پاکستان کیلئے موجودہ صورتحال قابل قبول نہیں ہے۔
بھارت کشمیریوں کی آواز انکی 80 لاکھ کی آبادی پر نو لاکھ سے زائد سفاک سپاہ کو مسلط کرکے دبانے میں کسی حد تک کامیاب ضرور ہوا ہے مگر بھارت میں اسکی حکمت عملی مکمل طور پر ناکام ہوگئی ہے۔ کشمیر کی طرح عقوبت خانہ بنانے کیلئے ایک کروڑ سے زائد سکیورٹی دستے درکار ہیں‘ اتنے تو آرایس ایس نیم فوجی دستے شامل کرکے بھی نہیں ہو سکتے لہٰذا حالات بدسے بدتر اور بدترین ہورہے ہیں۔ مودی حکومت عوام کو خاموش کرانے کیلئے نت نئے حربے اختیار کررہی ہے۔ اب بھارتی حکومت نے نئی دہلی میں بھی تین ماہ کیلئے نیشنل سکیورٹی ایکٹ نافذ کر دیا۔ ایکٹ کے نفاذ کے بعد پولیس بغیر وجہ بتائے کسی کو بھی حراست میںلے سکتی ہے۔ متازعہ شہریت قانون کیخلاف جاری احتجاج کے پیش نظر این ایس اے نافذ کیا گیا۔ مودی سرکار کے متنازع قانون کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کیخلاف کارروائیوں کا سلسلہ گزشتہ روز سے شروع ہوچکا ہے جس نے شہریت قانون کیخلاف مظاہرین کو مزید مشتعل کردیا۔ آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بھی نیشنل سکیورٹی ایکٹ نافذ ہے۔
شہریت قانون کی دنیا کی طرف سے مخالفت کا اندازہ مودی کے قریب سمجھے جانے والے حکمرانوں کے ردعمل سے بھی ہوجاتا ہے۔ بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے عرب اخبار کو انٹرویو میں بھارت کے متنازعہ شہریت قانون کو غیر ضروری قرار دیدیا انہوں نے کہا کہ سمجھ میں نہیں آیا بھارتی حکومت نے ایسا کیوں کیا۔شہریت قانون سے بھارت میں رہنے والے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ بنگلہ دیش نے احتجاجاً بھارت کے اعلیٰ سطح کے دور سے بھی منسوخ کر دیئے تھے۔ دوسری طرف اپنے احتجاج میں زور پیدا کرنے کیلئے بھارت میں مظاہرین نے وزیراعظم نریندر مودی کو ہزاروں خطوط ارسال کرنے کیلئے ایک پوسٹ کارڈ مہم شروع کی ہے ان خطوط میں مسلمان مخالف شہریت کا متنازع ترمیمی قانون واپس لینے پر زور دیا جارہا ہے۔ ایسی مہم سے مظاہرین دل کا غبار تو نکال سکیں گے مگر مودی جیسے سفاک حکمران کے ضمیر پر کسی خلش کا امکان نہیں ہے۔
امریکہ کے سینیٹر کوری بوکر نے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت یکطرفہ طور پر تبدیل کیے جانے کے معاملے پر سینیٹ میں قرارداد لانے کا عزم کیا ہے۔امریکن سینیٹر کا کہنا ہے کہ کشمیریوں کو سنگین نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے اور وہاں جو کچھ ہورہا ہے اس کے بارے میں شفاف صورتحال سامنے نہیں آرہی۔امریکی کانگرس میں اس حوالے سے پہلے بھی پیشرفت ہوچکی ہے۔ سینیٹر کوری کا کشمیریوں کی حمایت کا جذبہ قابل قدر ہے مگر اب معاملہ قراردادوں‘ تشویش اور روایتی مذمتوں سے بہت آگے نکل چکا ہے۔ بھارت پر الفاظ و بیان اور غم و غصے کا کوئی اثر نہیں ہوررہا۔ اب عملیت کی ضرورت ہے۔ امریکی کانگرس کے کشمیریوں اور بھارت میں موجود اقلیتوں کے انسانی حقوق کی پامالی پر تشویش میں مبتلا فاضل ارکان اپنی حکومت کو بھارت کیخلاف اس وقت تک پابندیاں عائد کرنے پر قائل کریں جب تک اقلیتوں کو انکے حقوق اور کشمیریوں کو استصواب کا حق نہیں د ے دیا جاتا۔