گزشتہ دور میں بنائی گئی56کمپنیوں کا مستقبل تاریک اور ان سے وابستہ حکام و اہلکاروں کا روزگار بھی کھوہ کھاتے جا رہا ہے۔یہ وہی کمپنیاں ہیں جن کے سربراہوں کی تنخواہیں اور مراعات کو شامل کر لیا جائے تو 50لاکھ ہامانہ سے کم نہ تھیں۔ کچھ ماہرین کے خیال میں ان کمپنیوں کو اس دور کے حکمرانوںنے محض ذاتی مقاصد و مفادات کے لیے تخلیق کیا۔ان کمپنیوں سے وابستہ افراد کس حالت میں ہیں اور ان کمپنیوںاور ان سے منسلک ملازمین کا مستقبل کیا ہوگا۔ اس کی ایک جھلک سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں نظر آتی ہے جس میںسپریم کورٹ نے ڈپٹی جنرل منیجر لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی محمد حنیف کی نوکری پر بحالی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے معاملہ واپس کمیٹی کو بھجوا دیا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پنجاب حکومت کی بنائی گئی کمپنیوں میں اب کوئی نہیں رہے گا، یہ کمپنیاں ختم ہوں گی۔ درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ وہ مجھے رول کے برخلاف نکال دیا۔ جسٹس اعجا ز الاحسن نے کہا جس عہدے پر کام کررہے تھے وہ عہدہ ہی ختم ہو گیا۔ درخواست گزار نے کہا کوئی کرپشن نہیں کی کوئی چوری نہیں کی، آپ کو اللہ کا واسطہ ہے میری بیٹیاں ہیں۔ چیف جسٹس نے درخواست گزار کو روکتے ہوئے کہا کہ عدالت میں جذباتی باتوں کا کوئی فائدہ نہیں، کوئی اور کام ڈھونڈ لیں۔اس خبر سے مجھے جی ٹی ایس اور محصول چونگیوں کے محکموں کی بھی یاد آگئی یہ محکمے اب تاریخ کی دھول میں دب کر اپنا وجود کھونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے حافظے سے بھی محو ہو چکے ہونگے لیکن ان محکموں سے وابستہ رہنے والے جس طرح تہی ٔ بے داماں ہوئے اور بے بسی کی تصویربن گئے ان میں سے کئی ابھی زندہ ہوں گے اور ان محکموں کی بقا اور ان کو منافع بخش نہ بنانے کیلئے اپنا کردار ادا نہ کرنے پر پچھتا رہے ہوں گے۔ گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کو اسکے ذمہ داروں اور یونین نے جی بھر کر لوٹاکچھ لوگ تو ضرور ارب پتی بنے ہونگے مگراپنے کام سے کام رکھنے والے یا معمولی ’’پتی‘‘ پر اکتفا کرنیوالے کئی افراد اوراہلکار بھی بھکاری بن گئے۔ایمانداری سے کام کرنے والوں نے بے ایمانوں کا ہاتھ نہ روکا تو ان کا اپنا روٹی روزی کا ذریعہ بھی باقی نہ رہا۔چونگی والوں کی سن لیں۔ ان کو اختیار ملا تو دیہاتی خواتین سے محصول چونگی یعنی ٹیکس کی آڑ میں والدین کی طرف سے دی گئی مرغی اور دو تین کلو چاول آٹا بھی قُرق کر لیتے تھے اس محکمے کے بے ایمان اہلکاروں کو غریبوں کی بد دعائیں لے ڈوبیں۔ جی ٹی ایس کو اسکے حکام اور اہلکارضرور منافع بخش بنا کر بچا سکتے تھے۔ آج ریلوے سٹیل مل اور پی آئی اے سمیت کئی ادارے سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اب ان میں کچھ سانس آنے لگاہے۔ انکی بحالی بڑی سلو ہے مگر بہتری ضرور آ رہی ہے۔ ان اداروں کو لوٹا جا رہا تھا۔جس سے خسارہ بڑھتا گیا اور یہ ادارے ڈوبتے گئے، آمدن پچاس لاکھ تو اخراجات 60 لاکھ تھے دہرا گھاٹا اورخسارہ تھا مگر اب لوٹ مار کے راستے بالکل ہی بند ہو چکے ہیں ۔ روٹین کا خسارہ گیا اس میں بھی ایک تو کفایت شعاری سے کمی ہو رہی ہے۔ دوسرے کار کردگی بھی حکومت کی کرپشن کے حوالے سے زیرو ٹالرنس کے باعث بہتر ہوئی ہے۔پہلے آمدن پچاس لاکھ اور اخراجات 60لاکھ ہوتے تھے۔ اب آمدن اخراجات میں توازن آنے کے بعد آمدن میں اضافہ ہو رہا ہے۔امید کی جانی چاہیے کہ کرپشن بد عنوانی اور بے ضابطگیوں پر اسی طرح گرفت ہو تی رہی جس طرح آج حکومت احتساب کے اداروں اور عدلیہ کی طرف سے ہو رہی ہے تو خسارے سے دو چار ہر ادارہ منافع بخش ہو تاجائیگا۔اس حکومت کی طرف سے ای او بی آئی کے کے پنشنروں کی بڑی ڈھارس بندھائی گئی ہے۔پنشن میں دو ہزار روپے اضافہ کیا جائیگا۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جس طرح کی دو نمبری کی گئی وہ نہایت افسوس ناک اورشرمناک ہے۔ آٹھ لاکھ لوگ غیر مستحق تھے۔ ستم بالائے ستم 16سو روپے ماہانہ وصول کرنیوالے ’’بے وسیلہ‘‘لوگوں میں اڑھائی ہزار گریڈ16سے 22کے افسر بھی شامل رہے۔جب ان کے نام منظر عام پر لانے ی بات ہوئی تو ان عظیم ہستیوں نے اسکی شدت سے مخالفت کی ۔ البتہ وزیر اعظم عمران خان مان کر نہ دئیے۔ ان لوگوں کے نام اب سا منے آ رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے نام سامنے لانے کے ساتھ ساتھ انکے گھروں پر’’خیرات کے اصل مستحق‘‘ کے بورڈ اور تختیاں لگا دینی چاہئیں ۔ کل تک یہ مستحق نہیں تھے مگر مستحق لوگوں کا حق کھاتے رہے۔اب نوکریوں سے نکالے جائینگے تو مستحق ضرور ہو جائیں گے ۔پی پی کی لیڈر شپ ان اڑھائی ہزار افسران سمیت آٹھ لاکھ لوگوں کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے نکالنے پر غصے میں ہے۔ اسکے لیڈر حکومت پر برس رہے ہیں ، لعن طعن کر رہے ہیں ۔ بلاول نے تازہ تازہ عمرہ کیا ہے۔ حکومت ذرا چیک کر لے یہ اخراجات کس اکاؤنٹ سے کئے گئے ہیں ۔حکومت نے جن آٹھ لاکھ افراد کے نام پروگرام سے نکالے ہیں ان میں سے کوئی واقعی مستحق ہے تو دوبارہ ثبوت فراہم کر کے اس پروگرام کا حصہ بن سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ تو اڑھائی ہزا افسروں کو بھی مستحق سمجھتی ہے۔اسکی بے جا بیان بازی سے فرق نہیں پڑنے والا۔
’’خیرات کے اصل مستحق‘‘
Jan 21, 2020