اسلام آباد (بی بی سی)جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکنے سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ججوں کے خلاف ریفرنس بھیجنے میں صدر کا کردار ربڑ سٹمپ ہے تو پھر یہ انتہائی خطرناک بات ہے۔ درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ آئین میں صدر کا کردار غیر جانبدارانہ لکھا گیا ہے لیکن صدر مملکت موجودہ حکومت کا ہی ایک حصہ ہیں۔ رضا ربانی نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیجے جانے والے صدارتی ریفرنس دراصل آزاد عدلیہ کے اختیارات کو سلب کرنے کے مترادف ہے۔ صدر کے پاس یہ اختیار ہے کہ اگر اْنھیں یہ معلوم ہو کہ حکومت کی طرف سے کسی بھی جج کے خلاف بھیجی جانے والی شکایت میں کچھ شکوک و شہبات ہیں تو صدر مملکت اس معاملے کو واپس وزیراعظم کو بھجوا سکتے ہیں لیکن اس معاملے میں ایسا نہیں کیا گیا۔ حکومت کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا کہ اعلی عدلیہ کے ان دونوں ججوں کے خلاف تحقیقات کے لیے پہلے ایف بی آر پھر ایف آئی اے اور اس کے بعد فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کو تفصیلات اور تفتیش کرنے کی ذمہ داری سونپتی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ اگر سالانہ گوشواروں میں ان جائیدادوں کا ذکر نہیں کیا جاتا جبکہ بعد میں انھیں تسلیم کر لیا جاتا ہے اور صدارتی ریفرنس دائر ہونے کے بعد یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے اور درخواست گزار ججوں کو نوٹس جاری کر دیتی ہے تو کیا اس پر جواب طلبی نہیں کرنی چاہیے۔