اسلام آباد (آئی این پی) سینٹ میں اپوزیشن تقسیم ، جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق کی ٹول ٹیکس فیس میں اضافہ واپس لینے کی قرارداد اپوزیشن کی اکثریت کے باوجود مسترد کر دی گئی۔ قرار داد پر رائے شماری میں قرار داد کے حق میں12جبکہ مخالفت میں15ووٹ پڑے۔ ایوان بالا میں بلوچستان اور فاٹا کے طلبہ کیلئے میڈیکل طالب علموں کیلئے وظائف کی2022تک توسیع،آبادی میں اضافے کی شرح کو کم کرنے کیلئے وفاقی و صوبائی حکومتوں کو ملکر اقدامات کرنے، کاروبار میں آسانیوں کیلئے شروع کئے گئے پروگرام پر من و عن عملدرآمد کرنے اور سرکاری و نیم سرکاری ملازمین کو رہائش گاہوں کی فراہمی کی قراردادیں متفقہ طور پر منظور کر لی گئیں جبکہ سرکاری ملازمتوں میں بھرتی کیلئے عمر کی بالائی حد میں مزید دو سال تک رعایت دینے اور پی آئی اے کے ریٹائرڈ ملازمین کو دوبارہ کنٹریکٹ پر بھرتی کرنے کی روایت کو ختم کرنے کی قرار دادوں کو مزید غور و خوض کیلئے متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کو بھجوا دیا گیا۔ پیر کو سینٹ کا اجلاس چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں سینیٹر سراج الحق نے قرارداد پیش کی کہ یہ ایوان سفارش کرتا ہے کہ موٹروے پر ٹول ٹیکس میں 10فیصد کے حالیہ اضافے کو واپس لیا جائے۔ حکومت کی جانب سے قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز نے قرار داد کی مخالفت کی اور کہا کہ ٹول ٹیکس میں اضافہ گزشتہ حکومت کی جانب سے 2016 میں کئے گئے معاہدے کی وجہ سے کیا گیا، معاہدے کے تحت ہر سال دس فیصد ٹول ٹیکس فیصد میں اضافہ لازمی ہے، ہم نے از خود اضافہ نہیں کیا، اگر ہم معاہدے کی پاسداری نہیں کریں گے تو ہم پر الزام آئے گا کہ سابقہ حکومتوں کے معاہدوں کی پاسداری نہیں کر رہے۔ چیئرمین سینٹ نے سراج الحق کی جانب سے قرار داد واپس نہ لینے پر ایوان میں قرار داد پر رائے شماری کرائی، قرار داد کی مخالفت میں 15جبکہ حق میں 12سینیٹرز نے ووٹ دیا، حیران کن طور پر سینٹ میں اپوزیشن کی اکثریت کے باوجود قرار داد مسترد کر دی گئی،قرار داد پر ووٹنگ کے وقت اپوزیشن سینیٹرز کی اکثریت ایوان میں موجود نہ تھی، سینٹ میں سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ نے قرار داد پیش کی کہ یہ ایوان سفارش کرتا ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے بلوچستان اور فاٹا کے طلباء کیلئے اعلیٰ تعلیم کے مواقعوں کی اسکیم کے تحت بلوچستان اورفاٹا کے طالبعلموں کو 2019میں میڈیکل اور ڈینٹل کالجز میں داخلے کیلئے دیئے گئے وظائف کو برقرار رکھا جائے اور ان میں 2022تک توسیع کی جائے، ایوان میں قرار داد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ خان نے قرار داد پیش کی کہ ملک میں مردم شماری 2018 میں ظاہر ہوئی آبادی کی نمو کی خطرناک شرح کے سنگین نتائج اور لوگوں اور معاشرے پر اس کے مضر اثرات محسوس کرتے ہوئے اس حقیقت کو مانتے ہوئے کہ والدین نہ صرف اپنے بچوں کی تعداد اور فیصلہ بندی کا آزادانہ فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہیں یہ ایوان حکومت کو ترغیب دیتا ہے کہ ملک میں خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات میں اضافے اور سر گرم اطلاعاتی مہمات کے ذریعے آبادی کی نمو کی شرح کو پائیدار سطح پر کم کرنے کیلئے صوبائی حکومتوں کے تعاون سے تمام ضروری اقدامات اٹھائے۔ ایوان میں قرار داد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔ سینیٹر بہرہ مند خان تنگی نے قرار داد پیش کی کہ یہ ایوان سفارش کرتا ہے کہ حکومت کی جانب سے کاروبار کی آسانی کیلئے شروع کردہ پروگرام پر من و عن عملدرآمد کر نے اور مقامی و بیرونی سرمایہ کاروں کو ملک میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنے کی غرض سے کاروباری برادری کیلئے سہولت پیدا کرنے کیلئے ضروری اقدامات کرے، ایوان میں قرار داد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔ سینیٹر سراج الحق نے قرار داد پیش کی کہ یہ ایوان سفارش کرتا ہے کہ حکومت سرکاری و نیم سرکاری محکموں میں کام کرنے والے تمام ملازمین کو سرکاری رہائش گاہیں فراہم کرنے کیلئے فوری اقدامات کرے، ایوان میں قرار داد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔ سینیٹر کلثوم پروین کی سرکاری ملازمتوں میں بھرتی کیلئے عمر کی بالائی حد میں مزید دو سال تک رعایت دینے اور سینیٹر ڈاکٹر مہر تاج روغانی کی پی آئی اے کے ریٹائرڈ ملازمین کو دوبارہ کنٹریکٹ پر بھرتی کرنے کی روایت کو ختم کرنے کی قراردادوں کو مزید غور و خوض کیلئے متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کو بھجوا دیا۔ سینٹ میں امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کا سودی کاروبار کی روک تھام کا بل قومی اسمبلی سے منظور نہ ہونے پرپارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں پیش کرنے کی تحریک متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔ پیر کو سینٹ کا اجلاس چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں سینیٹر سراج الحق نے تحریک پیش کی کہ سود کی بنیاد پر کئے جانے والے کاروبار نجی طور پر قرضے لینے اور رقوم کے لین دین کا بل دارالحکومت اسلام آباد میں نجی قرضہ جات پر سود کی ممانعت بل 2019 جو کہ سینیٹ سے منظور شدہ صورت میں قومی اسمبلی منتقل کیا گیا لیکن پیش کئے جانے والے 90 روز کے اندر قومی اسمبلی سے منظور نہیں کیا جا سکا۔ مذکورہ بل کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں زیرغور لایا جائے۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے رائے شماری کے بعد متفقہ طور پر منظور کر لی۔