نئی دہلی(آن لائن، انٹرنیشنل ڈیسک) بنگلہ دیش کے بعد افغانستان نے بھی بھارت کے متنازعہ شہریت ترمیمی ایکٹ کی مخالفت کر دی، سابق افغان صدر حامد کرزئی نے بھارتی اخبار دی ہندو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قانون جس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے اور 3 ممالک کے ہندو، سکھ، جین، بدھ مت، مسیحی اور پارسیوں کو شہریت دینے کا کہا ہے، اسے سب کے لیے ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'ہم نے افغانستان کی اقلیتوں پر ظلم نہیں کیا، ہم حالت جنگ میں ہیں اور طویل عرصے سے ہمیں تنازعات کا سامنا ہے، افغانستان میں تمام مذاہب بشمول ہمارے 3 بڑے مذاہب مسلمان ہندو اور سکھ کے، سب نے مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں امید ہے کہ اقلیتوں کے تحفظ کے جذبات بھارت میں بھی نظر آئیں گے۔ واضح رہے کہ حامد کرزئی کا نئی دہلی کے نظریے کے خلاف رائے دینا اہم ہے کیونکہ وہ دیگر کئی افغان رہنماؤں کی طرح بھارت کے قریبی دوستوں میں سے ایک ہیں۔ پولیس کا کام چوروں کو پکڑنا ہوتا ہے لیکن اگر پولیس ہی چور نکلے تو چور پولیس کا پتہ کون لگائے۔ شہریت کے مسلمان مخالف متنازعہ قانون کے خلاف جب ہندوستان کی ریاست اْتر پردیش کی خواتین احتجاج کر رہی تھیں تو وہاں کی پولیس نے احتجاج کرنے والی خواتین کے کمبل، کھانے پینے کا سامان اور دیگر اشیاء چرا لیں۔ پولیس اہلکاروں کی جانب سے احتجاج میں شریک خواتین کا سامان چوری کرنے کی ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہو گئی۔ ویڈیو میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح سے وہاں کی پولیس احتجاج کے لیے آئی خواتین کے سامان کو اْٹھا کر اپنی گاڑی میں ڈال رہی ہے۔ اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے ساتھ ہی ’کمبل چور یو پی پولیس‘ کا ہیش ٹیگ سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بنا رہا۔ احتجاج کرنے والی خواتین کا کہنا تھا کہ یہاں کی پولیس ہمارے ساتھ بالکل بھی تعاون نہیں کر رہی ہے، نہ تو ہمیں احتجاج کرنے دے رہی ہے اور نہ ہی یہاں پر ہمیں شیلٹر لگانے کی اجازت دے رہی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے کھانے پینے کی اشیاء ، کمبل اور دوسرا سامان جو ہم اپنے گھروں سے لے کر آئے تھے وہ بھی اْٹھا کر لے گئی ہے۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ کمشنر پولیس کا کہنا تھا کہ اہلکاروں نے قانون پر عملدرآمد کرتے ہوئے وہاں موجود لوگوں کا سامان اْٹھایا ہے۔ اْن کا مزید کہنا تھا کہ احتجاج کے لیے آئے ہوئے لوگوں نے سیکشن 144 کی خلاف ورزی کی جس کی وجہ سے انہیں یہ ایکشن لینا پڑا۔ اترپردیش کے ہندو انتہا پسند وزیراعلیٰ ادتیا یوگی ناتھ نے پولیس کو احتجاج کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لینے کی ہدایت کر رکھی ہے۔ بھارت میں دو ماہ سے جاری احتجاج میں اب تک تقریبا 19 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جب کہ 7000 ہزار سے زائد افرد کو فسادات کے الزام میں حراست میں لیا جا چکا ہے۔ صرف یہی نہیں اتر پردیش سمیت مختلف ریاستوں میں احتجاج میں شرکت اور توڑ پھوڑ کا الزام عائد کر کے مسلمانوں کی املاک پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔