باجی!  ماسک خرید لیں 

کرونا وائرس کے آتے ہی پوری دنیا ایک ایسی بیماری سے نبرد آزما ہونے کے لئے تیاری کرنے لگی جس کا نشان تک نہیں تھا‘مارچ 2020 تک اس بات کے شواہد تک موجود نہ تھے کہ ایک فیس ماسک‘ کرونا وائرس سے بچائو میں موثر ثابت ہو سکتا ہے لیکن جون 2020 میں عالمی ادارہ صحت کی تصدیق کے فوراً بعد اس سلسلے میں سرجیکل ماسک کو زیادہ اہمیت دی گئی اور پھر سب نے دیکھا کہ فیس ماسک کی کھپت میں یک لخت اضافہ ہونے لگا اورایک وقت یہ بھی آیا کہ پوری دنیا میں فیس ماسک کم پڑنے لگا‘ وہ ماسک جیسے کوئی پوچھتا تک نہیں تھا آج عالمی نشان بن چکا ہے۔ ماسک کے آتے ہی اس کی کئی اقسام دیکھنے میں آئیں جن میں سرجیکل‘ این 95‘ کپڑے اور کون کی طرز والے ماسک شامل ہیں۔ 
یہی وائرس سفر کرتا ہواجب پاکستان پہنچا اور 26 فروری 2020 کو اس کا پہلا کیس رپورٹ ہوا تو پاکستان کے طریقہ احتیاط کو پوری دنیا میں سراہا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک قلیل مدت میں پاکستان این 95 اور سرجیکل ماسک کا ایکسپورٹر بن کر عالمی سطح پر سامنے آیا۔ 
اس ضمن میں عالمی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے چھوٹے بڑے تاجروں نے اپنا پیسہ فیس ماسک پر لگانا شروع کردیا۔ ماہرین کے مطابق سال 2019 سے 2027 تک 7.1 فیصد اضافے کے ساتھ فیس ماسک کی تجارت کو 3.54 ملین کی بلندیوں تک دیکھا جا رہا ہے یہ ساری تفصیلات دیکھنے اور سننے میں بہت بھلی لگتی ہیں لیکن اس ساری افراتفری میں شاید ہم سب جس ایک چیز کو بھول گئے وہ تھی انسانیت‘ جگہ دیکھی نہیں اور ہم نے ایک دوسرے کو ہی لوٹنا شروع کردیا جو ماسک کبھی صرف 5 سے 10 روپے میں مل جایا کرتا تھا‘ اسی ماسک کو ہم نے 20 سے 50 روپے کی سطح تک خود پہنچا دیا۔ لوگوں کی مجبوریوں سے مختلف انداز میں فائدہ اٹھایا گیا اور آج بھی اٹھایا جا رہا ہے نہیں مانتے نا؟ میں بھی نہیں مانتا تھا تو جائیں کبھی عوامی ہسپتالوں کے باہر اور دیکھیں کہ کس بے دردی اور بے حسی کیساتھ یہ کاروبار جاری ہے۔ ایک طرف آپ کو چند بچے دکھائی دیں گے تو دوسری طرف کچھ جوان‘ اور یہی نہیں فٹ پاتھ پر خود کو دلاسے دیتے چند بوڑھے بھی ملیں گے جو فیس ماسک کا ڈبہ تھامے اپنے دن گن رہے ہیں۔ اس سب کے اختتام پر خوش آئند بات یہ ہے کہ ہم سب نے فیس ماسک چڑھا لیا لیکن افسوس! ایک بے حسی کیساتھ۔
ایک طرف ہسپتال کے باہر خواتین کے رکشے روک کر ان کے دروازے کھولتے ہوئے یہ صدائیں بلند ہوتی ہیں ’’باجی! ماسک لے لیں ورنہ اندر نہیں جانے دیں گے!‘‘ تو دوسری طرف گاڑی والے بڑے صاحب کے پیچھے دوڑ لگائی جاتی ہے اور انہیں مختلف پیش کشوں کے ذریعے قائل کرنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے ایسا اس لئے کیونکہ وہ باشعور ہیں اور ماسک کی اہمیت جانتے ہیں۔ 
اسی سلسلے میں میری تحقیق کے دوران چند بچوں سے قربت کا موقع ملا تو یہ جان کر میں دنگ رہ گیا کہ ان میں سے کافی سارے تو دوسروں کے لئے یہ ماسک بچیتے ہیں اب اسے بے روزگاری کہیں یا بے حسی لیکن میرے پاکستان میں یہ سب ہو رہا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر اس میں اضافہ ہی دیکھا جا رہا ہے۔ ایک فیس ماسک کا ڈبہ جس میں گنے چنے 50 ماسک ہوتے ہیں 300 روپے کے قریب قریب مل جاتا ہے لیکن اسی ایک ڈبے کو 20 روپے فی ماسک کے حساب سے 1000 روپے تک فروخت کیا جاتا ہے اور 20 روپے تو کہنے کی بات ہے جہاں داؤ لگ جائے وہاں 30 سے 50 روپے تک بھی بٹور لئے جاتے ہیں بس شرط صرف ایک ہے اور وہ ہے مجبوری۔ ہمیں دوسروں کی مجبوریوں سے کھیلنے میں بہت مزہ آتا ہے اسی لئے تو ہر صحت کے ادارے کے سامنے آپ کو ان بچوں اور بوڑھوں کی قطار نظر آتی ہے۔ اگر ان کا جائزہ لیں تو ایک طرف تو وہ بزرگ ہیں جو اپنی دو وقت کی روٹی کے سلسلے میں ماسک بیچ رہے ہیں لیکن دوسری طرف ایک مافیا ہے جو معصوم بچوں کا سہارا لیتے ہوئے انہیں روزگار کا لالچ دے کر ہلکے داموں خرید لیتا ہے۔ آپ خود ہی بتائیں کیا ظلم کو کسی اور تعریف کی ضرورت ہے؟ایک بچے نے لوگوں کے سلوک  کے سوال پر بتایا کہ زیادہ تر لوگ تو اس سے ماسک خرید لیتے ہیں لیکن کچھ  لوگ اس کے ہاتھوں کو دیکھ کر منہ چڑھاتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ بچے کے مطابق اس وقت اسے شدید دکھ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں فیس ماسک کا ہرگز مخالف نہیں لیکن وہ معصوم بچے اور بوڑھے جو اس خطرناک سلسلے کا حصہ بن چکے ہیں رہنما اور مدد کے طلبگار ہیں۔ ان تمام لوگوں کے حالات و واقعات دیکھنے کے بعد جو سوالات میرے ذہن کو جھنجھوڑنے لگتے ہیں۔ کچھ یہ ہیں کہ کیا یہ لوگ انسان نہیں؟ کیا انہیں خطرہ نہیں ہے اور کیا یہ متاثر نہیں ہو سکتے؟ اگر ہاں تو یہ سلسلہ ایسے ہی چلنے دیں  اگر نہیں تو خدارا اس ساری صورتحال کا بغور جائزہ لیں اور ان بے روزگار غربت کے ماروں کا سہارا بنیں کیونکہ جس بیماری سے بچنے کے لئے ہم ان سے ماسک خریدتے ہیں کہیں وہی بیماری ان معصوموں کی چوکھٹ نہ پھلانگنے لگے۔ اس سب کے ذمہ دار کہیں نہ کہیں ہم سب خود ہیں چونکہ اگر ہم انسان بنتے ہوئے ایک دوسرے کا خیال رکھتے تو شاید یہ صورتحال کبھی پیدا ہی ہوتی۔ خیال رکھیں اپنا اور ان انسانوں کا جو آپ کے لئے اپنی جان خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ آخر میں بس اتنا کہوں گا کہ یہ ضروری نہیں کہ ہر وہ چیز جس کا ہم سامنا کریں گے بدلی جا سکتی ہے لیکن ہر وہ چیز جس کا ہم سامنا کر ررہے ہیں بدلی جا سکتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...