فارن فنڈنگ کیس۔ پی ڈی ایم کا الیکشن کمیشن کے سامنے بڑا مظاہرہ اور الیکشن کمیشن کی وضاحت
اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ حکمران جماعت تحریک انصاف کیخلاف غیرملکی فنڈنگ کے زیرالتوا کیس کا جلد فیصلہ سنایا جائے۔ گزشتہ روز شاہراہ دستور پر الیکشن کمیشن کے سامنے ایک بڑے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن قائدین نے کہا کہ دہرا معیار ختم کرتے ہوئے فارن فنڈنگ کا فیصلہ جلد صادر کیا جائے اور وزیراعظم عمران خان کو نااہل قرار دیا جائے۔ اس اجتماع میں پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور پی ڈی ایم کی جماعتوں کے دوسرے قائدین مریم نواز‘ احسن اقبال‘ راجہ پرویز اشرف‘ نیر بخاری‘ آفتاب احمد شیرپائو‘ اخترمینگل‘ پروفیسر ساجد میر‘ امیر حیدر خان ہوتی اور محمود خان اچکزئی نے خطاب کیا جبکہ بلاول بھٹو زرداری عمرکوٹ میں سیاسی مصروفیات کے باعث پی ڈی ایم کے احتجاجی مظاہرے میں شریک نہیں ہوئے تاہم انہوں نے عمرکوٹ میں منعقدہ تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کو پاکستان کی سیاسی جمہوری قوتوں کے سوال کا جواب اور کٹھ پتلی کو استعفیٰ دینا ہوگا ورنہ عمرکوٹ کے لوگ اسلام آباد پہنچ کر استعفیٰ چھین لیں گے۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن نے پی ڈی ایم کے جلسہ اور کمیشن پر دبائو کو مسترد کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ ہے۔ ترجمان الیکشن کمیشن نے اس سلسلہ میں جاری کئے گئے اپنے بیان میں کہا کہ ادارہ اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ بھی ہے اور بغیر کسی دبائو کے یہ ذمہ داریاں نبھانے کیلئے پرعزم بھی ہے۔ ترجمان کے بقول الیکشن کمیشن نے بوجہ کرونا وبا‘ وکلاء کی عدالتی مصروفیات اور سکروٹنی کمیٹی کے ایک ممبر کی ریٹائرمنٹ کے باوجود فارن فنڈنگ میں خاطرخواہ پیش رفت کی ہے اور سکروٹنی کمیٹی کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ہفتے میں کم از کم تین دن اجلاس منعقد کرے تاکہ یہ کیس منطقی انجام تک پہنچ سکے۔
پاکستان الیکشن کمیشن بلاشبہ ایک خودمختار ادارہ ہے اور آئین کی 18ویں ترمیم کے تحت الیکشن کمیشن کے چیئرمین اور ارکان کا تقرر بھی وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے اتفاق رائے سے عمل میں آتا ہے۔ اس تناظر میں الیکشن کمیشن کے کسی فیصلہ یا انتظامی اقدام پر حکومت یا اپوزیشن‘ کسی بھی جانب سے کسی اعتراض کی گنجائش نہیں نکلتی اور نہ ہی ہونی چاہیے تاہم بدقسمتی سے ہمارے بلیم گیم والے سیاسی کلچر میں اپنے ہی منتخب کئے گئے الیکشن کمیشن اور اسکے چیئرمین و ارکان کو متنازعہ بنانے اور ان پر جانبداری کے الزامات کا طومار باندھنے میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ اسی کلچر کی بنیاد پر ایک دیانتدار اور مکمل غیرجانبدار چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم مستعفی ہونے پر مجبور ہو گئے تھے جس کے بعد متعدد شخصیات نے چیف الیکشن کمیشن کا منصب سنبھالنے سے معذوری کا اظہار کیا۔ تاہم اب تک جو بھی شخصیت چیف الیکشن کمیشن کے منصب پر فائز ہوئی ہے اسے اپوزیشن ہی نہیں‘ حکومت کی جانب سے بھی انتخابی دھاندلیوں اور جانبداری کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمارے سیاسی کلچر کی بلیم گیم والی یہ روایت ہنوز برقرار ہے جو اس وقت فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے شدت اختیار کرچکی ہے۔
آئین کے تحت ملک کی کوئی جماعت بیرون ملک سے فنڈ لینے کی مجاز نہیں ہوتی اور کسی جماعت پر غیرملکی فنڈ لینا ثابت ہو جائے تو اسکی پارٹی رجسٹریشن ختم اور عہدیدار نااہل ہو جاتے ہیں۔ اسی تناظر میں عمران خان کے ایک قریبی ساتھی اور تحریک انصاف کے بنیادی رکن نے بے شک تحریک انصاف میں مبینہ بے ضابطگیوں کی بنیاد پر ہی پارٹی قیادت سے اختلاف کرتے ہوئے 2014ء میں تحریک انصاف کی بیرونی فنڈنگ کا سوال اٹھایا اور پاکستان الیکشن کمیشن کے روبرو ریفرنس دائر کیا۔ بادی النظر میں تو اس ریفرنس کے قواعد و ضوابط کے مطابق چند ماہ کے اندر اندر فیصلہ میں کوئی امر مانع نہیں تھا تاہم بوجوہ یہ ریفرنس تاخیر اور التواء کا شکار ہوتا رہا اور اس دوران پی ٹی آئی کی جانب سے اسکی حریف جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کیخلاف بھی الیکشن کمیشن کے روبرو فارن فنڈنگ کے کیس دائر کردیئے گئے جس پر دوطرفہ بیان بازی اور ایک دوسرے پر پوائنٹ سکورنگ کا طولانی سلسلہ شروع ہو گیا۔ اب پی ٹی آئی کیخلاف دائر ریفرنس کو چھ سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور برسراقتدار ہونے کے باعث یہ پارٹی اس کیس کے حوالے سے اپوزیشن کی تنقید کی زیادہ زد میں ہے جبکہ الیکشن کمیشن پر بھی جانبداری کے الزامات اپوزیشن کی سیاست کا حصہ بن چکا ہے۔ یہی بلیم گیم کی سیاست مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کیخلاف دائر فارن فنڈنگ کیسز کے حوالے سے حکمران پی ٹی آئی کی جانب سے جاری ہے اس طرح ایک خالص قانونی اور آئینی معاملہ سیاست کی نذر ہو کر پیچیدہ صورتحال اختیار کررہا ہے۔ اگر الیکشن کمیشن کی جانب سے فارن فنڈنگ کے مقدمات کا بروقت فیصلہ صادر ہو جاتا جس کیلئے بادی النظر میں کوئی امر مانع بھی نہیں تھا تو اس معاملہ میں آج ملک کی سیاسی فضا جتنی مکدر ہوچکی ہے‘ اسکی شاید نوبت نہ آتی۔
اپوزیشن کا تو کام ہی ہر معاملے میں حکومت کو نیچا دکھانے کا ہوتا ہے جس کیلئے وہ کسی نہ کسی موقع کی تلاش میں رہتی ہے۔ بدقسمتی سے پی ٹی آئی کی حکومت نے عوام کے روٹی روزگار کے مسائل گھمبیر بنا کر اور مہنگائی کو بے لگام کرکے اپوزیشن کو چائے کے کپ میں طوفان اٹھانے کا خود ہی نادر موقع فراہم کیا ہے چنانچہ آج اپوزیشن جماعتیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر متحد ہو کر حکومتی گورننس کیخلاف اور اسکے دیگر معاملات میں اودھم مچاتی نظر آتی ہیں۔ اب تک سات پبلک جلسے منعقد کرچکی ہیں‘ مختلف ایشوز پر اسکے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور تسلسل کے ساتھ پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کے اعلانات بھی ہو رہے چنانچہ اسکی حکومت مخالف تحریک کے اسی ہلے میں فارن فنڈنگ کیس کی آڑ میں پی ڈی ایم کی جانب سے الیکشن کمیشن کو بھی رگڑا دے دیا گیا۔
بے شک حکومتی وزراء اور مشیروں کی جانب سے الیکشن کمیشن کے سامنے پی ڈی ایم کے شو کو ناکام قرار دیا گیا ہے اور وفاقی وزراء شبلی فراز‘ شیخ رشید احمد‘ فواد چودھری اور ڈاکٹر شیریں مزاری نے اپنی الگ الگ پریس کانفرنسوں میں پی ڈی ایم کو باور کرایا ہے کہ اسکے مظاہروں کی یہی صورتحال رہی تو ہم اسکے لانگ مارچ کو بھی خوش آمدید کہیں گے۔ اسی طرح وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی باور کرایا ہے کہ پی ڈی ایم ٹولے کا عوامی مسائل سے کچھ لینا دینا نہیں‘ اسکی منفی سیاست دفن ہو چکی ہے۔ اسکے باوجود فارن فنڈنگ کا کیس کوئی غیرسنجیدہ کیس ہرگز نہیں۔ الیکشن کمیشن کو اس کیس کے حوالے سے بلاشبہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوگا تاہم اس کیس کے غیرضروری طور پر التواء کا شکار ہونے سے الیکشن کمیشن کی ساکھ اور غیرجانبداری کا سوال اٹھنا بھی فطری امر ہوگا۔ اسے حکمران پی ٹی آئی کیخلاف ہی نہیں‘ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کیخلاف بھی دائر فارن فنڈنگ کے کیسز کا جلد فیصلہ صادر کر دینا چاہیے تاکہ اس پر جاری بلیم گیم کی سیاست کو بریک لگ سکے۔ حکومت اور اپوزیشن کو ایک دوسرے کیخلاف محاذآرائی کی سیاست میں حالات اس نہج تک نہیں لے جانے چاہئیں کہ ماضی کی طرح پھر جمہوریت کا مردہ خراب ہونے کی نوبت آجائے۔