گودام ہی نہیں امرا کے خزانے بھی لوٹیں

پی ڈی ایم کے جلسوں میں اپوزیشن قائدین تقاریر کرتے ہوئے جذبات میں کچھ زیادہ ہی بہہ جاتے ہیں۔ کبھی مولانا انس نورانی کی زبان غوطہ کھا جاتی ہے اور وہ بلوچستان کی آزادی کی بات کرتے ہیں۔ کبھی مولانا فضل الرحمن وزیر اعظم کو یہودی ایجنٹ قرار دے دیتے ہیں۔ کبھی مریم نواز حکومت کو لانے اور چلانے والی خفیہ طاقتوں کو مطعون کرتی ہیں۔ کبھی اختر مینگل مظلوم و محکوم اور حاکم کا ذکر کے صوبوں کو لتاڑتے ہیں۔ ان میں سب سے الگ بیان بازی محمود خان اچکزئی کی ہوتی ہے ۔ وہ علیحدہ ہی اپنالچ تلتے نظر آتے ہیں۔ ویسے تو ان کا ہر بیان ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد انکے خودساختہ تاریخی حوالوں اور تلخ زبان سے متنفر ہوتی ہے۔کسی بھی صوبے یا کسی بھی قوم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ہمارے سیاستدانوں خاص طور پر ان سیاستدانوں کو جنہیں اپنی جدوجہد میں ہر صوبہ سے تعاون کی ضرورت ہیا احتیاط کرنا چاہئے۔ اگر نفرت کے بیج بوئیں گے تو ہمارے کاز کی حمایت کون کریگا۔ اپوزیشن رہنمائوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ صوبائی لسانی یا قومیتی منافرت پھیلانے سے انکی راہ کھوٹی ہوسکتی ہے۔ پی ڈی ایم کسی ایک صوبے کسی ایک قوم کی کسی ایک لسانی گروپ کی نمائندگی نہیں کررہی وہ پورے ملک کی نمائندگی کررہی ہے اس لئے اسے سندھی، بلوچ، پٹھان اور پنجابی سب قوموں کے حق میں انکے مسائل کے حل کیلئے آواز بلند کرنا چاہئے۔ کیا پنجاب میں سب اچھا ہے کیا پنجاب میں مہنگائی اور غربت نہیں،بیروزگاری زیادہ نہیں ہے۔ پنجاب پاکستان کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے۔ یہاں غربت بھی اس حساب سے زیادہ ہے۔ مسائل بھی زیادہ ہیں یہاں دوسرے صوبوں سے دوسری قوموں کے لاکھوں افراد بھی روزگار کیلئے آتے ہیں اور مقیم بھی ہیں۔ یہاں کے لاکھوں مزدور کسان اور غریب عوام سندھ، بلوچوں اور پٹھانوں کی طرح غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔گزشتہ دنوں اسلام آباد میں محمود اچکزئی نے کہا کہ وہ مولانا فضل الرحمن سے فتویٰ لیں گے کہ غریبوں کو اجازت دی جائے کہ وہ سرکاری گودام لوٹ لیں۔ یہ ایک درست بات ہے۔ اس قسم کے حالات و واقعات ان معاشروں میں واقعی پیش آتے ہیں جہاں غربت کے باعث جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا ممکن نہیں رہتا۔ پاکستان میں ایسی حالت ہے یا نہیں یہ علیحدہ بحث ہے۔ عوام خود جانتے ہیں کہ ملک کے حالات کیا ہیں مگر ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا بلوچستان خیبر پی کے سندھ اور پنجاب میں صرف سرکاری گودام ہیں کیا ان صوبوں میں نجی اداروں اور دولت مند لوگوں نے آٹا ، چینی، چاول سے اپنے گودام اورکارخانوں کے گودام بھرے نہیں ہیں۔ سب سے پہلے ان ارب پتی کروڑپتی لوگوں کی تجوریاں توڑنے انکے چھپائے سرمائے اور گودام لوٹنے کی ضرورت ہے جو عوام کا خون نچوڑ کر پی رہے ہیں۔ خود اچکزئی صاحب انکے احباب کے پاس بھی بے حساب سرمایہ ہے۔ انکے علاوہ سردار مینگل صاحب مریم نواز صاحبہ ، اسفند یار ولی، مولانا فضل الرحمن اور تمام پی ڈی ایم کے رہنما خیر سے ارب پتی ہیں۔ انکے دوست احباب سب پیسے والے ہیں۔ آخر ان کو ترس کیوں نہیں آتا کہ وہ غربت اور بھوک کے خاتمے کیلئے اپنا سرمایہ اپنی دولت خرچ کریں تقسیم کریں۔ کیا غربت، بھوک اور بیروزگاری ختم کرنے کیلئے حکومتی تاج و تخت اور خزانہ ضروری ہے۔ اگر یہ سب مالدار لوگ مل کر ملک سے بیماری، غربت اور بیروزگاری کے خاتمے کا تہیہ کرلیں تو ملک کا منظر نامہ تبدیل ہوسکتا ہے مگر ہمارے مذہبی قائدین ہوں یا سیاسی قائدین، حکمران ہوں یا اپوزیشن، سرمایہ دار ہوں یا صنعت کار، سمگلرہوں یا ذخیرہ اندوز، سود خور ہوں یا ناجائز منافع خورتاجر سب صرف اور صرف مال جمع کرنے پر زور دیتے ہیں۔ لوگوں کو بیوقوف بنانے کیلئے البتہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ یہ تو اللہ کی مرضی ہے جسے چاہے دولت دے جسے چاہے نہ دے گویا وہ دولت کی ، وسائل کی غیرمساویانہ تقسیم کو خدا پر ڈال کر اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑاتے ہیں جبکہ قرآن مجید میں جو اللہ کی کتاب ہے بار بار مال و دولت جمع کرنیوالوں کیلئے اسے غرباء ، مساکین، یتیم، فقیر ، مستحقین اور رشتہ داروں پر خرچ نہ کرنے پر سخت وعید اور سزا کا تذکرہ کئی بار کیا گیا ہے کئی احادیث میں ایسے لوگوں کو مطعون کیا گیا ہے وہ انہیں کیوں یاد نہیں۔حکمران تو کوئی بھی ہو اسے اپنی اور اپنے حامیوں کی تجوریاں بھرنے سے دلچسپی ہوتی ہے۔ وہ سب بھی اپنا ذخیرہ مال بڑھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ غریبوں کے حال سے کسی کو دلچسپی نہیں ہوتی وہ بھی اپوزیشن کی طرح صرف تسلیاں دے کر جھوٹے خواب دکھا کر غریب عوام کو بے وقوف بناتے ہیں۔ اگر ہمارے حکمران غریبوں کے ہمدرد ہوتے تو وہ ملکی خزانہ اور دولت لوٹنے والوں کو چاہے اس میں وہ خود بھی شامل کیوں نہ ہوں۔ نشان عبرت بنا کر لوٹا ہوا سرمایہ چھین کر عوام کے مسائل حل کرنے پر لگا دیں تو ملک کی حالت بدل سکتی ہے مگر ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا اور نہ آئندہ ہوتا نظر آتا ہے۔ ہم صرف 
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو 
کاخ امراء کے درو دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو ’’روٹی‘‘
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
والے علامہ اقبال کے شعر صرف جلسہ گرمانے کیلئے پڑھتے ہیں۔ آخر انہیں اپنے چھپائے ہوئے مال و زر کے ڈھیر نظر کیوں نہیں آتے ہم ان کو بانٹنے میں پہل کیوں نہیں کرتے۔ شاید اس لئے کہ وہ ہم نے اپنی آل و اولاد کیلئے جمع کئے ہوتے ہیں نہ حکمرانوں میں اتنی ہمت ہے نہ اپوزیشن میں، نہ سرمایہ کاروں تاجروں، نہ صنعتکاروں ، نہ دولت مند اشرافیہ میں کہ وہ عوام کو اجازت دیں کہ وہ ذی شان عالی وقار لوگوں کے گھروں یا گوداموں پر ہلہ بول کر سب کچھ لوٹ لیں۔ خواہ وہ انکے اپنوں کے ہی کیوں نہ ہوں۔

ای پیپر دی نیشن