اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل ڈویژن بنچ نے رخسانہ بنگش کی نیب انکوائری روکنے اور ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ گذشتہ روز سماعت کے دوران نیب کے ڈائریکٹر عدالت میں پیش ہوئے۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نیب نے رخسانہ بنگش کے وارنٹ گرفتاری جاری نہیں کیے، گرفتاری کی ضرورت نہیں۔ عدالت نے تفتیشی افسر کے کال اپ نوٹس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیب کسی شخص کی زندگی داؤ پر لگا دیتا ہے اور یہ تفتیش کی جاتی ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کیا آپ نے تفتیشی کا پہلا سوالنامہ دیکھا تھا کیس کیا ہے اور سوال کیا کر رہے ہیں۔ ڈائریکٹر نیب نے کہا کہ جی میں نے دیکھا ہے ہمارے تفتیشی افسر سے غلطی ہوئی۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کوالیفیکیشن اور ڈگریوں کے سوال لکھے تھے۔ شکر ہے نہیں لکھا تھا کہ آپکا پسندیدہ رنگ کونسا ہے۔ پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ میں معذرت چاہتا ہوں تفتیشی افسر سے غلطی ہوئی۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ جسٹس علی نواز چوہان نے نیب کی تفتیش سے متعلق فیصلہ دیا تھا۔ عدالت نے فیصلے میں لکھا تھا کہ نیب تفتیش کتنی خراب ہوتی ہے۔ 20 سالوں میں نیب آگے نہیں گئی بلکہ پیچھے ہی گئی ہے۔ اپنے تفتیشی افسران کو کچھ سکھائیں‘ انکو بتائیں تفتیش کیسے کی جاتی ہے۔ آج کل لاکھوں کروڑوں ڈالرز کی ٹرانزیکشن ہوتی ہے یہ تو 21 ہزار ڈالرز کی ٹرانزیکشن ہے۔ انکوائری کرنا نیب کا کام ہے لیکن ہر کام کا ایک طریقہ کار ہے۔ تفتیش کے دوران نیب کو ایسا کیا سامنے آیا کہ وہ اس حد تک چلے گئے ہیں۔ ملک کا قانون فارن کرنسی خریدنے اور ایک سے زیادہ اکاؤنٹس رکھنے سے روکتا نہیں ہے۔ تیس پینتیس لاکھ رخسانہ بنگش کے کاروبار کرنے والے بیٹے کیلئے کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ ڈائریکٹر صاحب آپ بھی ویسے ہی جواب دے رہے ہیں جیسے تفتیشی نے دیے تھے۔ اگر آپ ایسے کرینگے تو ہم ڈی جی یا چیئرمین نیب کو عدالت میں طلب کر لیتے ہیں۔ نیب کا رخسانہ بنگش کو بھیجا گیا کال اپ نوٹس غلط ہے، میں نے اب تک نیب کا کوئی کال اپ نوٹس سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق نہیں دیکھا۔ جب ملزمان کو بلایا جاتا ہے تو کیا نیب خود ہی پریس ریلیز جاری کر دیتا ہے۔ میڈیا ٹرائل نہیں ہونا چاہیے۔ ہر ایک کی عزت ہوتی ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم اس پر فیصلہ جاری کرینگے، جس پر فاروق ایچ نائیک ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالت ایک تفصیلی فیصلہ جاری کرے۔