تحصیل جنڈ: قیام  پاکستان سے ابتک صنعتی یونٹ قائم نہ ہو سکا 

تحصیل جنڈ کا علاقہ جندال انتہائی پسماندہ اور بارانی ہے قیام  پاکستان کو عرصہ75سال ہو چکے ہیں اس علاقے میں کوئی صنعتی یونٹ قائم نہیں ہو سکا جہاں 3/4 سو مزدور روزانہ کام کر سکیں علاقے میں صنعتی یونٹ نہ ہونے کی وجہ سے بیروزگاری عام ہے رسل و ورسائل کے ذرائع جدید نہیں جہاں سفر تیزی سے طے ہو سکے سڑکیں پرانی جن کی تعمیر و مرمت نہ ہونے کی وجہ سے سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں لاری اڈا پنڈ سلطانی سے براستہ دومیل ناڑہ موڑ اٹک جانے والی شاہراہ ویران ہو چکی ہے کبھی کبھار کوئی گاڑی اس پر نظر آتی ہے اس سڑک پر تحصیل جنڈ کے دو بڑے شہر ایک پنڈ سلطانی اور دوسرا دومیل قائم ہیں قبل ازیںجنڈ یا دیگر شہروں سے آنی والی گاڑیاں پنڈ سلطانی لاری اڈا سے براستہ دومیل ناڑہ موڑ اٹک جاتی تھی جبکہ اب اس روڈ پر بڑے بڑے گڑھے بننے کی وجہ سے ٹرانسپورٹر حضرات نے منہ موڑ لیا ہے اب گاڑیاں براستہ مٹھیال چوک سے اٹک جاتی ہیں جس وجہ سے تقریباً 8/10کلو میٹر کا زیادہ سفر طے کرنا پڑتا ہے سوشل میڈیا ،پرنٹ اور الیکڑونک میڈیا میں بھی اس روڈ کی تعمیر کے حوالے سے کمپین جاری ہے لیکن متعلقہ حکام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی کسی گورنمنٹ نے سڑک کو کارپٹ کرانے کیلئے گرانٹ مختص نہیں کی اب عوا م منتخب نمائندوں سے مایوس نظر آتے ہیں جس علاقے کے عوام کیلئے رسل ورسائل نہ ہوں وہ علاقے خاک ترقی کریں گے اس روڈ کیلئے فوری طور پر گرانٹ فراہم کی جائے اور محکمہ روڈ کے افسران سے باز پرس کی جائے کہ وہ کس مرض کی دوا ہیں مذکورہ سڑک پر کبھی گینگ مین کام کرتے نظر نہیں آئے ۔صرف انتخابات کے دنوں میں ووٹ لینے کیلئے لیڈر صاحبان کا نظر آنا اب عوام نے بھی سمجھ لیا ہے کہ لیڈران کو عوام کے ترقیاتی کاموں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اس پسماندہ تحصیل جنڈ کا کل رقبہ پانچ لاکھ اکتہر ہزار نوصد ستاون ایکڑ ہے نل چاہی رقبہ 2254ایکڑ ۔رکھ بے چراہ 11ہیں جہاں کوئی آبادی نہیں ہے آئل اینڈ گیس کی بڑی آئل دکنی آئل فیلڈ ہے جہاں 9ویل کام کر رہے ہیں تحصیل جنڈ سے نکلنی والی قدرتی گیس مقامی آبادیوں کو نہیں فراہم کی جا رہی جنڈ کے عوام گیس ہونے کے باوجود لکڑیاں ،ایل پی جی گیس کے سلنڈر اور تیل کے چولہے  جلانے پر مجبور ہیں جبکہ ان علاقوں کے عوام کو ملازمتیں بھی نہیں دی جاتیں ۔تحصیل جنڈ جو رقبے کے لحاظ سے تحصیل جنڈ کی سب سے بڑی تحصیل ہے یہاں پر بیروزگاری عام ہے نوجوان پڑھ لکھ کر ڈگریاں ہاتھ میں پکڑ کر نوکری کیلئے دھکے کھا رہے ہیں ہر دور میں اس علاقے کو نظر انذاز کیا گیا ۔آمدہ بلدیاتی الیکشن کی گہما گہمی بھی شروع ہو چکی ہے وزیر اعظم عمران خان کے قریبی دوست زلفی بخار ی نے بھی اسی حلقہ این اے56سے جنرل الیکشن لڑنے کا اعلان بھی کر دیا ہے جبکہ گزشتہ جنرل الیکشن میں یہاں سے میجر(ر) طاہر صادق پی ٹی آئی کے ٹکٹ سے منتخب ہوئے تھے انہوں نے بھی یہ سیٹ چھوڑ دی تھی جس پر ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما ملک سہیل کمڑیال نے پی ٹی آئی کے ملک خرم کو شکست دے دی تھی لیکن ملک سہیل کمڑیال کا تعلق اپوزیشن پارٹی سے ہے اور حکومت نے اپوزیشن پارٹی کے منتخب نمائندگان کو فنڈز فراہم نہیں کیے جس وجہ سے تحصیل جنڈ کی عوام کو ترقیاتی کاموں کیلئے مزید پانچ سال انتظار کرتا پڑ رہا ہے ۔تحصیل جنڈ کے حلقہ پی پی 5سے ایم پی اے ملک جمشید الطاف کا تعلق حکومتی پارٹی پاکستان تحریک انصاف سے ہے وہ تحصیل جنڈ کی پسماندگی کو دور کرنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کر رہے پیشتر علاقوں میں ترقیاتی کام جاری بھی ہیں لیکن وہ بھی آٹے میں نمک کے برابر ہے کیونکہ تحصیل جنڈ کو ہر دور میں نظر انذاز کیا گیا ہے اور یہ تحصیل کیونکہ رقبے کے لحاظ سے بڑی تحصیل ہے ۔ عوام علاقہ کا کہنا ہے کہ ملک جمشید الطاف حکومت پنجاب وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے تحصیل جنڈ کیلئے خصوصی گرانٹ لیں تاکہ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں کو ازسر نو تعمیر ہو سکے اور 75سالوں سے محروم علاقہ بھی دیگر ترقی یافتہ علاقوں کے ہم پلہ ہو ۔جہاں تک تحصیل جنڈ میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو میجر(ر) طاہر صادق کا نام بولتا ہے چاہے وہ ترقیاتی کام ہوں یا نوجوانوں کو باعزت روزگار کی فراہمی ہو ۔اس دفعہ بھی میجر(ر) طاہر صادق کی صاحب زادی سابق ڈسٹرکٹ چیئر پرسن ایمان طاہر نے بھی ضلع کونسل فنڈز سے تحصیل جنڈ میں بہت سارے ترقیاتی کام کیے ہیں اب بھی ضلع کونسل سابقہ بلدیاتی نظام ختم ہونے سے پہلے بجلی کی مد میں اچھی خاصی رقم مختص کی گئی ہے علاقہ بھر سے سروے بھی مکمل ہو چکے ہیں امید کی جا رہی ہے کہ بہت جلد بیشتر علاقوں میں بجلی فراہم کر دی جائے گی۔آمدہ بلدیاتی الیکشن کی آمد کی خبریں گردش کر رہی ہیں لوکل بلدیاتی امیدواروں نے بھی لنگوٹ کس لئے ہیں اس طرف بہت سارے نئے چہرے بھی سامنے آ رہے ہیں ۔ 

ای پیپر دی نیشن