حافظ آباد(نمائندہ نوائے وقت+نمائندہ خصوصی+نامہ نگار) شدیدسردی کی وجہ سے نوزائیدہ اورچھوٹے بچوں میں نمونیہ پھیل گیا میں اضافہ سے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے چلڈرن وارڈ میں بیڈکم پڑگئے۔ واضح رہے کہ 1993 میں حافظ آبادکوبغیر کوئی علاقہ شامل کئے اورہسپتال کو کوئی اضافی سہولتیںدئیے بغیر ہی ضلع کادرجہ دے دیاگیا۔اس وقت بھی یہ125بیڈکاہسپتال تھامگروقت کے ساتھ ساتھ زبانی جمع خرچ اورکاغذی طورپر اسکو240 بیڈکاہسپتال بنادیاگیا مگرتاحال29سال گزرنے کے بعد بھی فنڈز 125بیڈکے ہی جاری کئے۔جس وجہ سے ہسپتال انتظامیہ اتنے کم بجٹ میں ایک بیڈ پر2/2مریض اورچلڈرن وارڈ میںایک بیڈپر3/4 مریض بچے لٹاکر 260بیڈکاہسپتال چلارہی ہے ۔سردی میں اضافہ کی وجہ سے نوزائیدہ بچوںمیں نمونیہ کی شرح میں اضافہ کے باعث ڈی ایچ کیوہسپتال میں بچوں کارش بڑھ گیا ہے ۔ایک بیڈپر مائیں تین سے چاربچے لیکربیٹھی ہوئی ہیںیہ امرقابل ذکر ہے کہ سواسال قبل وزیراعظم عمران خان نے دورہ حافظ آبادکے موقع پر ایم این اے چوہدری شوکت علی بھٹی کی درخواست پر 240بیڈزکاجدیدسہولیات سے مزین ڈی ایچ کیوہسپتال بنانے کا اعلان کیاتھاجس کے لئے پنجاب حکومت زمین بھی الاٹ کردی اورفنڈز کابھی اجراکردیاتھاجس کاڈپٹی کمشنر حافظ آبادکاکئی باراعلان بھی کیاہے مگراسکی تعمیر میں تاخیرکی وجہ سامنے نہیں آئی۔