ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کے دوران سکیورٹی اور کوآرڈی نیشن کے موضوع پر سیشن کے دوران خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا نیو ورلڈ آرڈر کی وجہ سے ایشیائی ممالک بالخصوص ترقی پذیر ممالک مشکلات کا شکار ہیں۔ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی سمیت مختلف چیلنجز کا سامنا ہے، کوئی بھی ملک چیلنجز سے تنہا نہیں نمٹ سکتا۔ روس یوکرین تنازع کی وجہ سے دنیا بھر میں گیس کی قیمتیں بڑھیں، روس یوکرین جنگ کی وجہ سے انسانی تنازع نے جنم لیا، روس یوکرین جنگ کے منفی اثرات دنیا پر مرتب ہوئے۔ یوکرین معاملے پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل ہوتا ہے لیکن افسوس ہے مغرب کے لیے کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں محض کاغذی رہ جاتی ہیں، کشمیری بھی آزادی کے لیے دنیا کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ممالک کے درمیان ہر متنازع معاملہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق حل ہونا چاہیے، خطے میں تنازعات کے حل کے لیے مثبت سوچ اپنانا ہو گی۔
پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے حقائق پر بات کرتے ہوئے اقوامِ عالم کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے انہوں نے روس یوکرین جنگ کے معاملے پر دنیا کی توجہ اور اقدامات کا موازنہ کرتے ہوئے دنیا کو مسئلہ کشمیر پر بھی غور کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ بنیادی طور پر انہوں نے اقوامِ عالم کے دوہرے معیار کو بے نقاب کیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کو جہاں موقع ملتا ہے وہ پاکستان کا موقف مضبوط انداز میں پیش کرتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے بات ہو یا پھر دہشت گردی کا معاملہ ہو یا پھر مطلب نکلنے کے بعد پاکستان کی طرف سے آنکھیں پھیرنے کی بات ہو یا مسئلہ کشمیر بلاول بھٹو زرداری ہر جگہ پاکستان کا موقف بہتر انداز میں پیش کرنے اور خاطر خواہ نتائج حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ انہیں اچھے کام کے باوجود بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ وہ پاکستان تحریکِ انصاف کی اعلیٰ قیادت کے نشانے پر رہتے ہیں۔ یاد رہے کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے بھی بھارت کو بامقصد اور سنجیدہ مذاکرات کی دعوت دی ہے تاہم وہ بھارت کی طرف سے کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کے اقدامات کے خاتمے کی بھی خواہش رکھتے ہیں۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف دنیا سے بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں البتہ بھارت کے معاملے میں کیس نسبتاً مختلف ہو جاتا ہے وہاں جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا اس وقت تک بامقصد اور بامعنی مذاکرات ممکن نہیں ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے دنیا کو یوکرین جنگ کا حوالہ دے کر سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ اگر ایک جنگ کی وجہ سے آج دنیا کو بے پناہ مسائل کا سامنا ہے تو پھر دنیا کو دو ایٹمی طاقتوں کے مابین مسائل حل کروانے میں کردار ادا کرنا ہو گا کیونکہ اگر خدانخواستہ یہاں کچھ ایسا ہوتا ہے تو یاد رکھیں براہ راست لگ بھگ دو ارب انسان مشکلات کا شکار ہوں گے اور ان کے ساتھ جڑے کتنے لوگوں کی مصیبتوں میں اضافہ ہو گا اس کا اندازہ لگانا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے۔ لہذا دنیا ایک عالمی جنگ کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ یہ جنگ کسی کے بھی حق میں نہیں ہے اور اس سے بچنا یا دنیا کو بچانا صرف پاکستان کی ذمہ داری نہیں ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے سیلاب کے بعد بھی بہت کام کیا تھا اور دنیا کی توجہ حاصل کرنے اور دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ سیلاب سے آنے والی تباہی کے بعد ان علاقوں کی تعمیر نو کے لیے دنیا کو اپنی ذمہ داری نبھانا ہو گی۔ ایک طرف یہ کام ہو رہا ہے تو دوسری طرف پاکستان میں اپوزیشن مسلسل پاکستان کی معاشی مشکلات کا مذاق بنا رہی ہے۔ آج امداد کو برا بھلا کہنے والوں کو اپنا وقت ضرور یاد رکھنا چاہیے جب انہوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کیے اور پھر ان پر عمل نہیں کیا یا پھر آئی ایم ایف کے پاس جانے میں تاخیر کو بھی غلطی قرار دیا تھا۔ یوں ملک کا مذاق بنانے کے بجائے کچھ سمجھ داری اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسری طرف پاکستان نے روس سے خام تیل، پٹرول اور ڈیزل درآمد کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ روس اور پاکستان کے درمیان بین الحکومتی کمیشن کے اجلاس کے بعد وزیر توانائی مصدق ملک نے کہا کہ روس سے خام تیل کی خریداری اور پاکستان اسٹریم گیس پائپ لائن سے متعلق اسٹرکچر کو مارچ میں حتمی شکل دی جائیگی۔ مارچ میں روس سے خام تیل، پیٹرول اور ڈیزل درآمد کرنا شروع کردیں گے۔ فی الحال پاکستان کو دینے کے لیے روس کے پاس ایل این جی نہیں ہے۔ پاکستان روس سے اپنی مجموعی ضرورت کا پینتیس فیصد خام تیل درآمد کرنا چاہتا ہے۔
پاکستان کو اپنے معاشی مسائل حل کرنے اور معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے ایسی ہی شراکت داریوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات پر جتنا سرمایہ خرچ ہوتا ہے وہ ہمارے بس سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ اگر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو قابو میں لانا ہے تو اس کے لیے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔ صرف پیٹرول مہنگا ہونے سے ہر چیز نے مہنگا ہونا ہے کیونکہ ہمارے پاس توانائی کے متبادل ذرائع موجود نہیں ہیں۔ روس سے بہتر تجارتی تعلقات سے مسائل میں کمی آ سکتی ہے۔ اس حوالے سے سابق حکومت نے جو موقف پیش کیا تھا وہ تو غلط ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اب بھی وقت ہے تمام سیاسی جماعتیں اپنی سیاست سے زیادہ ملک کو اہمیت دینے کا راستہ اختیار کریں۔ ذاتی مفادات یا اقتدار کے لیے ہونے والے جھگڑوں کو ایک حد تک ہی برداشت کیا جا سکتا ہے۔ سیاست دانوں کے پاس کھلا راستہ ہے، مسائل کا انبار ہے اگر اب بھی وہ قوم کی توقعات پر پورا نہیں اترتے تو پھر یاد رکھیں وقت اور حالات بدلتے دیر نہیں لگتی، منظر نامہ بدل جاتا ہے۔ اگر کوئی ملک کے لیے اچھا کام کر رہا ہے تو اس کے بارے نفرت پھیلانے کے بجائے حقائق قوم کے سامنے رکھیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے پندرہ رکنی قومی کفایت شعاری کمیٹی تشکیل دی ہے۔ سابق پرنسپل سیکرٹری ناصر محمود کھوسہ کمیٹی کے کنوینر ہوں گے جبکہ وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا کمیٹی کی شریک کنوینر ہوں گی۔
کمیٹی سرکاری اخراجات میں کمی، مالی نظم و ضبط کی سفارشات پیش کرے گی، کمیٹی سرکاری وسائل کی بچت کے لیے اقدامات تجویز کرے گی، حکومتی حجم میں کمی، اسٹرکچرل اصلاحات کی سفارشات بھی مرتب ہوں گی۔
یہ ایک اچھی کوشش ہے اگر کمیٹی اپنی حدود میں رہتے ہوئے حقائق کو سامنے رکھ کر قابل عمل تجاویز پیش کرے اور پھر ان تجاویز پر عملدرآمد کے لیے سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت بھی کی جائے اور فیصلوں سے پہلے کو سب کو اعتماد میں لے کر اعلان کے بعد کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہ کی جائے۔ پاکستان کو غیر معمولی حالات کا سامنا ہے ان حالات میں غیر معمولی اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔