پنجاب بھر میں ضلعی اور تحصیل سطح کی ہر بارایسوسی ایشن کے سالانہ انتخابات کامرحلہ طے ہوا۔ جو ماسوائے لاہور کے باقی شہروں میں پرامن ہی رہا۔ وکلاءتنظیموں کے انتخابات کی تاریخ قیام پاکستان سے قبل کی ہے ۔پاکستان میں سب سے پہلے لوگوں نے وکلاءکو جمہوری اور انسانی حقوق کی خاطر جدوجہد کرتے اس وقت دیکھا جب جنرل ایوب خاں کے خلاف ملک بھر میں عوامی تحریک چلی ۔دفعہ 144نافذ تھی اس لئے وکلاءسیاسی جماعتوں سے اظہاریکجہتی کی خاطر چار،چار کی ٹولیوں میں اتنا فاصلہ رکھ کر شامل ہوتے کہ اس دفعہ کی زد میں نہ آسکیں۔سفید پتلونیں،سفید قمیضیں،کالے کوٹ، کالی ٹائی اور سفید وگ لگائے کسی جلوس میں شرکت کرتے ہوئے جس شاہراہ سے گذرتے، تقدس کا ایک ہالہ انکے گردہوتا۔وکلاءکی شان دیکھنے کیلئے ایک ہجوم امڈ پڑتا جس سے جلسہ وجلوس کی رونق میں مزید اضافہ ہوجاتا۔
مجھے یاد ہے جب باغ بیرون موچی گیٹ سے مولانا عبیداللہ انورکی قیادت میں جلوس نکلتا تو لاہور ہائی کورٹ کے وکلاءمیاں محمود علی قصوری ،ایم انوربارایٹ لاء،عابدحسن منٹو، میاں بشیر ظفر،میاں آفتاب فرخ اور ایسے ہی دیگر کئی نامور وکلاءجب یونیفارم پہنے چارچار کی ٹولیاں بنائے جمہوری جدوجہد کرنیوالے دیگر سینکڑوں وکلاءکے ساتھ شامل ہوتے تو شہر شہر اس کے چرچے لوگوں کی زبان پرہوتے اخبارات ان کی تصاویر شائع کرتے تو لوگ اخبار سنبھال کررکھتے۔
مشرقی پاکستان میں جسٹس(ر)محبوب مرشد اور انکے ساتھیوں نے وکلاءحضرات کے ساتھ ایسے ہی معرکے انجام دیئے۔ جنرل ایوب خاں کادورتمام ہواور وکلاءصاحبان بھرسرخرو ہوئے۔اسکے بعد جنرل یحییٰ خاں کا دور ایک عبوری دور تھا۔مغربی پاکستان میں کوئی تحریک جنم نہ لے سکی تاہم مشرقی پاکستان میں ایک ایسے مرحلے میں داخل ہوچکی تھی جس میں بنگالی وکلاءکی شمولیت کی ضرورت ہی رہی۔اسکے آگے کی ایک تاریخ ہے ۔ایک گھناﺅنی اور المناک تاریخ جس کے دامن میں سوائے ،ندامت اور آنسوﺅں کے اور کچھ بھی نہیں ۔ تاریخ کی اس راکھ میں سے ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا۔بھٹو نے پہلا کارنامہ یہ انجام دیا کہ لاہور میں سلامی سربراہی کانفرنس کا کامیاب انعقاد کیا۔اس سے اگلے سال 1973ءمیں قوم کوایک متفقہ آئین دیا۔
اس سے اگلے سال 1974ءمیں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیااورایٹم بم کی بنیاد رکھی ۔ان عظیم کارناموں کے باوجود وہ اپنے اندر چھپے ایک جاگیردار کو نہ چھپاسکا۔ڈیرہ غازی خاں سے جماعت اسلامی کے ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر نذیر کوقتل کرانے کے علاوہ جماعت کے امیر میاں طفیل محمد ،مسلم لیگ کے چوہدری ظہورالہی ،ملک قاسم،اور جمعیت علماءاسلام کے علماءکرام کو شاہی قلعے میں ظلم وجور کا نشانہ بنایا گیا۔کراچی میں مزدوروں پر گولیاں چلا کر انہیں شہید کردیا گیا۔ بلوچستان میں فوج کشی کی گئی ،سرحد اور بلوچستان کی حکومتیں توڑ دی گئیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کادور انسانی حقوق کے حوالے سے بہت برا رہا۔
بھٹو کے دور میں بھی وکلاءنے انسانی حقوق کیلئے جدوجہد کی باالخصوص لاہور کورٹ بار نے، جہاں خاص طور پر تحریک استقلال سے وابستہ وکلاءنے ریاستی تشدد کا مقابلہ کیا۔
ایک بار پھر میاں محمود علی قصوری ،ایم انور بارایٹ لائ، عابد حسن منٹو،میاں آفتاب فرخ ،ڈاکٹر خالد رانجھا، سید ظفر علی شاہ ،ادریس باجوہ ،شیخ تاجدین ،چوہدری محمود بشیر ورک ،چوہدری سیف اللہ بٹر، اکرام ناگرہ اور دیگر ہزاروں وکلاءنے مسلسل جدوجہد جاری رکھی۔اسی جد وجہد میں لاہور ہائی کورٹ کی نائب صدراور تحریک استقلال کی راہنما مس رابعہ قاری ایڈووکیٹ جیسی منحنی خاتون کو ایک جلوس میں لاٹھیوں کا نشانہ بنایا گیا۔یہاں پربتاتا چلوں کہ لوگوں نے بھٹو کے دور حکومت کے بارے میں محض سنا ہے ،ہم نے دیکھا اور بھگتا ہے ۔
خود مجھے 1976,1975,1974 اور پھر1977ءکے سالوں میں مہینوں لاہور ، گوجرانوالہ اور جھنگ کی جیلوں میں طوق وسلاسل کا سامنا کرنا پڑا۔بھٹوکی اقتدار سے رخصتی اور پھانسی کے بعد وکلاءکی جدوجہد اب اگلے مرحلے میں داخل ہوئی جب جنرل ضیاءالحق نے 5جولائی 1977کو ملک بھر میں مارشل لاءنافذ کردیا۔اس کے خلاف ابتدائی تین سالوں تک کوئی تحریک نہ چل سکی ۔ کچھ سیاسی جماعتیںایسی بھی تھیں جو تن من سے جنرل ضیاءالحق کی دست پناہ بن گئیں۔ جماعت اسلامی جیسی منظم جماعت نے شہر شہر اور کوچہ کوچہ جنرل کو اخلاقی اور سیاسی مددفراہم کی اسے" مرد مومن مردحق" کا خطاب دےکرسند جواز عطا کرنے کی کوشش کی، یہاں تک کہ سیاسی جماعتوں اور سیاسی کارکنوں کی مخبری کابھی مکروہ دھندہ انجام دیا۔ہر شعبہ زندگی میں جنرل کے خدائی خدمتگار بن کر خوب خوب مزے لوٹے جیسے وہ اس سے قبل جنرل یحییٰ خاں کے دور میں لوٹ چکے تھے۔
1981ءکے اوخراور 1981ءاوائل کے اوائل میں جنرل ضیاءالحق کے خلاف(ایم آر ڈی )" تحریک بحالی جمہوریت" کے نام سے سیاسی اتحاد قائم ہوا جوصرف اورصرف وکلاءکی کوششوں کامرہون منت تھا۔ لاہور ، پشاور اورکراچی میں بڑے بڑے وکلاءکنونشن ہوئے۔ لاہور میں میاں محمود علی قصوری کے ہاں فین روڈ پر بیگم نصرت بھٹو، نوابزادہ نصراللہ خاں،ملک قاسم اور عابد حسن منٹو،مولانا فضل الرحمان،نیشنل عوامی پارٹی کے سردار شیر باز مزاری ،مزدور کسان پارٹی نے مل کر ایم آر ڈی کی بنیاد رکھی چونکہ تحریک استقلال کے سربراہ اصغرخاں نظر بند تھے اس لئے ایم آر ڈی کے اعلامیہ پرتحریک استقلا ل کی طرف سے میاں محمود علی قصوری نے دستخط کئے۔ ایم آر ڈی میں وکلاءکی کثیر تعداد شامل رہی۔1981 ءمیں سب سے پہلے وکلاءنے ہی لاہور ہائیکو ر ٹ میں ایک بڑا کنونشن کیا۔اور بہت سے وکلاءگرفتار ہوکرجیلوں میں پہنچے ۔
پس تحریر:۔اپنی نوعیت کے لحاظ سے کالم کاموضوع قدرے تفصیل طلب ہے۔باقی حصہ انشاءاللہ اگلے ہفتے کے روز۔
٭....٭....٭
وکلاءتنظیموں کے انتخابات
Jan 21, 2023