تعلیم کا عالمی دن 24 جنوری کو پاکستان سمیت اور دنیا بھر میں منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو پہلی بار تین دسمبر 2018ءکو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بطور تعلیم کا دن منانے کی قرارداد منظورکی تھی، جس کا مقصد امن اور ترقی کے لیے تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔اقوامِ متحدہ کے بین الاقوامی چارٹر برائے انسانی حقوق کے سیکشن 26 کے تحت تعلیم انسان کا بنیادی حق ہے۔ بین الاقوامی چارٹر کے مطابق عوام کو مفت اور لازمی بنیادی تعلیم فراہم کرنا ریاست کا فرض قرار دیا گیا ہے۔پاکستان سمیت بین الاقوامی سطح پر تعلیمی عمل کو معیاری بنانے کے لیے نت نئے چیلنجز کا سامنا ہے آج بھی دنیا بھر میں کروڑوں بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں اسی طرح پاکستان میں بھی تعلیم کا شعبہ کوتاہی کا شکار نظر آتا ہے۔ بدقسمتی سے قیامِ پاکستان سے آج تک کسی بھی حکومت نے ملک میں تعلیمی اصلاحات کو مکمل طور پر نافذ کرنے کے لیے کوئی خاص اقدامات نہیں اٹھائے۔ یونیسیف کے مطابق، پاکستان 223 ملین آبادی کا رکھنے والا ملک اس وقت ”دنیا میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی دوسری سب سے زیادہ تعداد“ رکھتا ہے، جو کہ تقریباً 22 اعشاریہ 8 ملین بچوں کے برابر ہے اور یہ بچے تعلیم جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ہر حکومت اعلانات تو بڑے بڑے کرتی ہے لیکن تعلیم کے حوالے سے عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دوسری جانب تعلیم کسی بھی انسان کیلئے کتنی ضروری ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے دین اسلام نے بھی تعلیم اور علم کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ سب سے پہلی وحی جو ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اس میں بھی پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ ہے کہ ہر مسلمان پر علم حاصل کرنا فرض قرار دیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں بد قسمتی سے شرح خواندگی ابھی بھی پچاس سے ساٹھ فیصد کے درمیان ہیں اور چاروں صوبوں میں لاکھوں کروڑوں بچے سکول جانے سے قاصر ہیں، کئی ایسے علاقے ہیں جہاں سکول قائم ہی نہیں کئے گئے جس کی وجہ پاکستان میں یکساں نظام تعلیم کا نہ ہونا بھی ہے۔ ایک جانب ہماری سول حکومتیں ہیں جو تعلیم کا فروغ تو چاہتی ہیں لیکن عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں تو دوسری جانب ہماری فوج اور اس سے منسلک ادارے ہیں جو پورے ملک میں بلا تفریق تعلیم کے فروغ اور اس کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے کام کر رہے ہیں۔ پاک فوج کے زیر انتظام آرمی پبلک سکول، کیڈٹس کالج، یونیورسٹیاں کام کر رہی ہیں جہاں طلبہ کی ذہنی آبیاری کی جاتی ہے۔ انہیں معاشرے میں جینے کا ہنر سکھایا جاتا ہے۔
آرمی پبلک سکول کی ہی بات کریں تو اسکی دو سوسے زائد برانچز ہیں اور پاکستان کے اٹھارہ ریجنز میں کام کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ درجنوں کیڈٹس کالج ہیں جو اپنا کام بخوبی سر انجام دے رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کئی یونیورسٹیاں ہیں جن کی انتظامی ذمہ داریاں پاک فوج کے پاس ہیں جہاں اس وقت ہزاروں لاکھوں طلبہ علم کی پیاس بجھا رہے ہیں۔ پھر پاکستان میں میڈیکل کالجز کا قیام پاک فوج کا ایک اہم کارنامہ ہے خصوصا بلوچستان میں آرمی میڈیکل کالج کا قیام ایک ایسا عمل ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ ان تمام اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعداد دیکھیں تو وہ لاکھوں میں ہے یعنی آبادی کا ایک بڑا حصہ پاک فوج کی جانب سے قائم کردہ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہا ہے۔
پھر اگرہم ان تعلیمی اداروں کے معیار اور سسٹم پر بات کریں تو وہ بھی پاک فوج کا ایک منفرد کارنامہ ہے کہ پورے پاکستان میں ایسے تعلیمی ادارے قائم کئے ہیں جہاں علم کی روشنی پھیلانے کا کام کیا جاتا ہے۔ آرمی پبلک سکولز اور پاکستا ن میں کام کرنے والے اس جیسے اداروں کا تقابلی جائزہ لیں تو گزرے برسوں میں آرمی پبلک سکولز سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ نے نہ صرف پوزیشن حاصل کیں ہیں بلکہ یہ وہ طلبہ ہیں جن میں پڑھنے والے طلبہ کی پچاس فیصد تعداد سویلین ہے جو اس بات کا مظہر ہے کہ آرمی پبلک سکولز میں میرٹ کا بھی نظام قائم ہے۔پھر فوج کے تحت چلنے والے ان اداروں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ خالصتا فوج کے فنڈز سے چلائے جاتے ہیں۔ اس کیلئے حکومت سے کسی قسم کی کوئی مالی امداد نہیں لی جاتی اپنے وسائل سے ان اداروں کو چلایا جاتا ہے۔ پرائمری اور سیکنڈری سطح پر آرمی پبلک سکولز اور کیڈٹس کالجز کے ذریعے جہاں لاکھوں طلبہ کی علم کی پیاس بجھائی جا رہی ہے وہیں پاکستان کی چند بڑی یونیورسٹیوں میں بھی پاک فوج حکومت کی معاونت کر رہی ہے تا کہ اعلی سطح پر تعلیمی ماحول فراہم کر کے طلبہ کو ایک کامیاب شہری بنایا جا سکے۔ ان تعلیمی اداروں میں جہاں سویلین طلبہ بھی یکساں تعلیم حاصل کرتے ہیں وہیں شہدا کی کے کو خصوصی وظیفے دیئے جاتے ہیں تا کہ انہیں کسی بھی لمحے اپنے پیاروں کی جدائی کا احساس نہ ہو۔ سکول کالجز، یونیورسٹیوں اور تکنیکی اداروں کی اگر فہرست بیان کرنے پر آو¿ں تو ایک پوری کتاب مرتب کی جا سکتی ہے کہ پاک فوج کیسے خاموشی سے علمی میدان میں کارہائے نمایاں سر انجام دے رہی ہے۔ تعلیم حاصل کرنا اور علم کو پھیلانا ایک صدقہ جاریہہے اور پاک فوج یہ عمل جس خوش اسلوبی سے انجام دے رہی ہے سویلین اداروں کو بھی پاک فوج کی اس عمل میں تقلید کرنی چاہئے تا کہ علمی میدان میں پاکستان دنیا بھر میں نمایاں مقام حاصل کر سکے۔