”کیسا لگا سرپرائز؟“


کمرہ عدالت میں کیس کی سماعت جاری تھی۔ جج نے گواہ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔ مدعی تیزی سے باہر نکلا۔ اس کی نظر سامنے کھڑے ایک کرائے کے گواہ پر پڑی جلدی سے اس کا ہاتھ پکڑا اور کھینچ کر کمرہ عدالت میں لے گیا۔ گواہ بار بار پوچھتا رہا کہ بتا تو دے بھائی کیس کیا ہے؟؟لیکن مدعی نے جلد بازی میں اس کی بات سنی ان سنی کر دی۔ عدالت کے روبرو پیش ہوتے ہی جج صاحب نے پوچھا کہ تم موقع پر موجود تھے ؟ اس شخص نے جواب دیا جی بالکل۔
 جج نے پوچھا تو وہ کتنی بڑی تھی۔
 اب گواہ کو سمجھ نہ آئی کہ وہ تھی کیا۔ کوئی خاتون تھی؟کوئی گائے بھینس تھی؟ یا کچھ اور۔گو
اہ بھی پروفیشنل تھا، ایک ہاتھ اٹھا کے بولا:
 جناب تقریباً اتنی۔۔۔جج نے حیرت سے پوچھا اتنی بڑی مرغی ؟
 اب گواہ کو اندازہ ہوا کہ شاید یہ کوئی مرغی چوری وغیرہ کا کیس ہے۔ تو اس نے حاظر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا :
جناب مجھے دوسرا ہاتھ بھی تو نیچے لانے دیں۔ 
ہمارے یہاں بھی سیاست میں پارٹیوں کے ترجمانوں کا مسئلہ کچھ ایسا ہی بلکہ اس سے کچھ بڑھ کر ہے۔ کئی بار تو انہیں اس بات کی وضاحت کرنی پڑ جاتی ہے جو انہیں معلوم ہی نہیں ہوتی ،صرف یہ سوچ کر کہ شاید ایسا ہوا ہو ، وہ نہ جانتے ہوئے بھی تاویلیں پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ آخر ترجمان جو ہوئے۔ ورنہ سب کیا سوچیں گے یہ کیسا ترجمان ہے جسے پتا ہی نہیں کیا ہورہا ہے۔ اور اس سے بھی مشکل یہ کہ آج جس بات کا دفاع کیا کل اسے غلط ثابت کرکے نئی بات کو درست قرار دینا۔ ویسے ہمارے یہاں سیاسی جماعتوں میں مشاورت کا عمل اتنا ہے کہ کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنا ہو تو ہنگامی مشاورتی اجلاس طلب ہوجاتا ہے اور اس کے بعد خبر یہ سامنے آتی ہے کہ پارٹی نے فیصلے کا اختیار اپنے سربراہ کو دیدیا۔ کوئی پوچھے یہ اختیار آپ سے لے کون سکتا ہے۔ جو کرنا ہے آپ نے ہی توکرنا ہے ،، اوپر سے پارٹیوں میں جمہوریت اتنی ہے کہ قانون کو پورا کرنے کے لئے ہر سال دو سال بعد پارٹی انتخابات تو کرادیئے جاتے ہیں لیکن آج تک کسی پارٹی کی سربراہی ایک شخصیت یا ایک خاندان سے باہر گئی نہ جاتی دکھائی دے رہی ہے۔
 اب سوچیں ان ترجمانوں کی مشکل کا جو ایک سال پہلے اس بات کے آئینی حوالے دیتے تھے کہ اسمبلی کی مدت مکمل ہونا کتنا ضروری ہے ،اور آج اسی شد و مد کے ساتھ فوری انتخابات کو ناگزیر ثابت کرنے میں لگے ہیں۔ جو ایک سال پہلے ملک کو دنیا کا سستا ترین ملک ثابت کر رہے تھے اب مہنگائی پر لوگوں کو احتجاج کی دعوتیں دے رہے ہیں۔ جو پہلے اعدادوشمار سے ملکی معیشت کو اوپر جاتا دکھا رہے تھے آج ویسے ہی اعدادوشمار سے ملک کے دیوالیہ ہونے کی پیش گوئیاں کررہے ہیں۔ جو پہلے مخالف ارکان کی حمایت کو ان کے ضمیر کی آواز کہتے تھے پھر اپنے ارکان کے مخالف کیمپ میں جانے کو بدترین ہارس ٹریڈنگ قرار دیتے رہے۔ 
جو ایک آئینی عہدے پر اپنی نامزد شخصیت کے تقرر پر انکی تعریفوں کے پل باندھ رہے تھے اب اسی شخصیت کو انتہائی جانبدار ، ناقابل قبول اور نہ جانے کیا کیا ثابت کرنے پر لگ گئے۔ جو امریکہ کو اپنی حکومت گرانے کا ذمہ دار قرار دے کر برا بھلا کہتے رہے پھر اسی امریکہ سے اچھے تعلقات کے گن گانے لگے ،جو غلامی نامنظور ،میر جعفر ،میر صادق کی گردانیں کرتے رہے وہی پھر اسٹیبلشمنٹ کو حقیقت قرار دے کر آگے بڑھنے کی باتیں کرے لگے۔ پہلے ارکان اسمبلی کے استعفے منظور نہ کرنے پر تنقید اور پھر استعفوں کی منظوری پر احتجاج۔ پہلے اسمبلی چھوڑ کر چلے آئے اور مہنیوں یہی سمجھاتے رہے کہ واپس جانے کا مطلب یہ ہوگا۔ وہ ہوگا۔ اب کہتے ہیں انہیں اسمبلی جانے سے روکا جارہا ہے۔ یقین جانیئے بہت مشکل اور ڈھٹائی کا کام ہے کہ پہلے دن کو رات سے بہتر ثابت کیا جائے اور پھر کہا جائے نہیں اصل میں تو رات ہی زیادہ بہتر تھی۔ یوٹرن لیں لیڈر اور وضاحتیں دیں بیچارے ترجمان۔
 تو جناب اپنی بادشاہت قائم رکھیں۔ اپنی سہولت ،ضرورت اور فائدے کے مطابق جانئیے بھی بدلیں اور بیان بھی ، عظیم لیڈورں کی نشانی کہہ کر یوٹرن بھی لے لیں اور لوگوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھیں لیکن اور کسی کا نا سہی ان بیچارے ترجمانوں کا ہی کچھ خیال کرلیا کریں اب آپ کے بار بار کے یوٹرن پر ہر بار وہ یہ تو نہیں کہہ سکتے ناں،،کیسا لگا سرپرائز !
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن