سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ حکومت جو نہیں کرنا چاہتی‘ وہ کرنا پڑیگا ‘حکومت نے اگر مدت پوری کرنی ہے تو مشکل اقدامات کرنا ہونگے کیونکہ آئی ایم ایف پروگرام لانا ضروری ہے۔ کوئی حکمران اپنا حق ادا نہیں کر سکا۔
چند روز قبل مفتاح اسماعیل اپنی حکومت کی گورننس پر تنقید کر چکے ہیں اور اب پھر انہوں نے حکومت پر تنقید کے نشتر چلا دیئے۔ جہاں تک انکی اس بات کا تعلق ہے کہ کوئی حکمران اپنا حق ادا نہیں کر سکا تو جناب یہ حق آپ خود کیوں نہیں ادا کرپائے‘ حکومت نے تو پہلے آپ ہی کو حق ادا کرنے کا موقع دیا تھا۔ عہدہ سنبھالنے پر تو آپ نے بھی روایتی بڑھک مار کر قوم کو مطمئن کردیا تھا کہ معیشت کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کردینگے۔ لیکن جلد ہی یوٹرن لیتے ہوئے اپنے اس بیان سے رجوع کرلیا اور ایسے بیانات داغنے شروع کر دیئے جن سے قوم میں مایوسی پھیلنا شروع ہو گئی۔ اگر آپ ملک و قوم کو بہترین اقتصادی پالیسی دے دیتے تو آج ڈار صاحب کی جگہ آپ قومی خزانے کے خزانچی ہوتے اور قوم بھی آپ سے خوش ہوتی۔ آپ اب بھی قوم کے دل جیت سکتے ہیں‘ اگر وزارت سے محروم ہو جانے کے بعد آپ کے ہاتھ کوئی مجرب نسخہ آگیا ہے جس سے معیشت میں بہتری آسکتی ہے تو اسے دبائے رکھنے کے بجائے آپ کو اپنی حکومت کے ساتھ ضرور شیئر کرنا چاہیے۔ رہی بات یہ کہ حکومت جو نہیں کرنا چاہتی‘ اسے کرنا پڑیگا اور مدت پوری کرنے کیلئے مشکل فیصلے کرنا ہونگے تاکہ آئی ایم ایف پروگرام لایا جا سکے تو جناب! آج تک ملک میں آئی ایم ایف کا ہی پروگرام چلتا نظر آرہا ہے۔ اس وقت قوم کی جو درگت بنی نظر آرہی ہے‘ یہ آئی ایم ایف کے پروگراموں کا ہی نتیجہ ہے جسے مسلط کرنے والے تو خوش ہیں مگر عوام پریشان ہیں۔ آپ بے فکر رہیں‘ حکومت نہ چاہتے ہوئے بھی وہی کچھ کریگی جو آئی ایم ایف کی منشاءہوگی ۔ قوم کو بھی آئی ایم ایف سے ہر قرض کی منظوری پر ڈرنا چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ کہتے ہیں ناں‘ جب اوکھلی میں سر دے دیا تو موسلی سے کیا ڈرنا۔
٭....٭....٭
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے کہا ہے کہ ملک کو کامیاب بنانے کیلئے ضروری ہے کہ نوجوانوں کو باشعور بنایا جائے۔ ہم نوجوانوں کے ذریعے ترقی کی منازل طے کر سکتے ہیں۔
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ کیونکہ ترقی کی منازل طے کرنے کیلئے نوجوانوں کو مواقع تو حکومت نے ہی دینے ہیں جو نہیں دے پا رہی۔ نوجوان تو بے چارے ڈگریاں ہاتھ میں لئے روزگار کیلئے مارے مارے پھر رہے ہیں‘ ہر حکومت انہیں روزگار دینے کے بلند بانگ دعوے تو کرتی ہے مگر عملاً کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ معمولی چپڑاسی کی نوکری کیلئے ہزاروں ایم اے پاس نوجوان درخواستیں دے ڈالتے ہیں جبکہ اس پر بھی بھاری سفارش سے بالا بالا سلیکشن ہو جاتی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے بھی اقتدار میں آنے سے قبل نوجوانوں کو پانچ کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھالیکن اقتدار میں آنے کے بعد پانچ کروڑ تو کجا‘ پانچ نوجوانوں کو بھی میرٹ پرروزگار نہ دے سکی جبکہ پارٹی کے سینئر وزیر نے تو یہ بیان دیکر جان ہی چھڑالی کہ روزگار دینا ریاست کی ذمہ داری نہیں۔ اب احسن اقبال صاحب نوجوانوں کو باشعور بنانے کا سوچ رہے ہیں تاکہ ملک ترقی کی منازل طے کر سکے۔ موجودہ ملکی سیاست اور سوشل میڈیا نے نوجوان نسل کو کافی باشعور بنا دیا ہے‘ اب اسے بخوبی اندازہ ہو چکا ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کے ایسے بیانات صرف اپنی سیاست چمکانے کیلئے ہوتے ہیں‘ درحقیقت اندر سے کھوکھلے ہوتے ہیں۔ کاش! حکومتوں نے نوجوانوں کیلئے کچھ کیا ہوتا تو آج علامہ اقبال کا یہ شعر سچ ہوتا دکھائی دیتا کہ:
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
علامہ صاحب کو شاید اندازہ نہیں تھا کہ انہوں نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا‘ اسکی تعبیر اسکے برعکس سامنے آئیگی۔ آنیوالے دور میں حکمرانوں کی ناقص پالیسیاں نوجوانوں کے ہاتھوں سے کمندیں چھین کر کشکول تھما دیں گی اور وہ ستاروں پر کمند ڈالنے کے بجائے امداد دینے والوں پر ”گاٹیاں“ ڈالیں گے جس کا عملی مظاہرہ موجودہ حکومت میں دیکھا جا سکتا ہے۔
٭....٭....٭
ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ہم جماہی کیوں لیتے ہیں؟
تحقیق کے مطابق انسان جب بیزار ہوتا ہے یا اس پر غنودگی طاری ہوتی ہے تو وہ آہستہ سانس لینے لگتا ہے جسکے نتیجے میں خون میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اجتماع ہوتا ہے جس پر دماغ اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے گہری سانس لینے پر مجبور کردیتا ہے۔ اسے جماہی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ سائنس مفروضوں پر کام کرتی ہے اس لئے بہت سی تحقیقات اور مشاہدوں کے نتائج حقائق کے برعکس سامنے آجاتے ہیں جبکہ سائنس دان خود بھی اس تحقیق کے نتائج کو رد کر دیتے ہیں۔ جماہی کے بارے میں جو تحقیق کی گئی ہے ممکن ہے ایسا ہی ہو‘ مگر اس وقت یہ تحقیق بالکل ناکارہ ہوتی دکھائی دیتی ہے جب کسی خوشگوار محفل میں کوئی شخص جماہی لینا شروع کر دے تو اسکے اثرات دوسروں پر بھی نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں اور محفل میں بیٹھے کئی دوسرے لوگ بھی جماہی لینا شروع کر دیتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق پہلے شخص کا جماہی لینا تو سمجھ میں آتا ہے‘ لیکن ان حضرات کے بارے میں تحقیق کرنےوالے کیا کہیں گے جو بلاوجہ اسکی دیکھا دیکھی جماہی لینا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر سائنس دان اس سے متفق نہیں تو کسی محفل میں تجربہ کرکے دیکھ لیں‘ انکی ساری تحقیق دھری کی دھری رہ جائیگی۔
٭....٭....٭
خبر ہے کہ امبولی پولیس نے اسلام قبول کرنیوالی بھارتی اداکارہ راکھی ساونت کو ادارہ شرلین چوپڑا کیس میں گرفتار کرلیا۔
راکھی ساونت کو شرلین چوپڑا کیخلاف قابل اعتراض زبان استعمال کرنے پر گرفتار کیا گیا۔ گزشتہ روز راکھی ساونت اپنے شوہر عادل خان درانی کے اشتراک سے بنائی گئی ڈانس اکیڈمی لانچ کرنے والی تھیں‘ تاہم انہیں تقریب سے قبل ہی گرفتار کرلیا گیا۔ بھارت مسلمانوں کے ساتھ اپنا تعصب لاکھ چھپاناچاہے‘ نہیںچھپا سکتا۔ یہ اس کا تعصب ہی تو ہے کہ جب تک راکھی ساونت ہندو دھرم میں تھیں‘ ان کیخلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی ‘ جیسے ہی انہوں نے اسلام قبول کیا‘ بھارتی کالا قانون فوراً حرکت میں آگیا اور انہیں تقریب سے پہلے ہی گرفتار کرکے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔اس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ ہندوﺅں کو مسلمانوں کے سارے خون معاف ہیں۔ بھارت کا مکروہ چہرہ تو گزشتہ کئی برس سے دنیا کے سامنے آچکا ہے‘ اور جو کسر باقی رہ گئی ہے‘ وہ متعصب ہندو اپنی حرکتوں سے مزید عیاں کر رہے ہیں۔ راکھی ساونت نے گزشتہ دنوں اسلام قبول کرکے ایک مسلمان لڑکے سے شادی کی جس کی بنا پر اب ان پر بھارت کی زمین تنگ کی جا رہی ہے مگر راکھی کو ہمت اور حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے۔ وہ جس متعصب ملک میں رہتی ہیں‘ وہاں ہندوﺅں نے مسلمانوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ ان پر مظالم کی انتہاءکی جا رہی ہے ‘ گزشتہ روز بھی ہندو انتہاءپسندوں نے مسلمانوں کے گھروں ‘ دکانوں کو جلا ڈالا اور لوٹ مار کی۔ سوشل میڈیا پر ویڈیوز سامنے آنے کے باوجود بھارتی پولیس نے انتہاءپسندوں کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ مگر حیرت ہے کہ بھارت کی اس کھلی بدمعاشی پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اندھی‘ بہری اور گونگی بنی نظر آرہی ہیں جبکہ عالمی اداروں اور طاقتوں کی تو بات ہی چھوڑیں‘ عالمی قوانین کی بدترین خلاف ورزی کے باوجود بھارت انکی آنکھ کا تارا بنا ہوا ہے۔
ہفتہ،28 جمادی الثانی 1444ھ، 21 جنوری 2023ئ
Jan 21, 2023