تحریر :کامران نسیم بٹالوی
روشنیوں کا شہر کراچی ملک کی معاشی شہ رگ ہونے کے باوجود بھی ماضی میں بہت سی محرومیوں کا شکار رہا ہے اور اب تک ہے اور اس کی بنیادی وجہ سیاسی جماعتوں کے درمیان باہمی اختلافات اور سراسر خود غرضی کا عنصر ہونا ہے۔ ماضی میں کراچی کو بھارتی شہر ممبئی کا جڑواں شہر قرار دیا جاتا تھا اور یہ دونوں شہر معیار اور طرز زندگی میں یکسانیت کے حامل تھے ۔ٹرامز،سرکلر ٹرین سروس ،ڈبل ڈیکر بسیں ، اعلی صفائی ستھرائی ،شاہراوں کی چمک دمک اور خوبصورت بس اسٹاپ ،بلند و بالا عمارتیں اور دیگر بہت سی سہولیات شہریوں کا اثاثہ ہوتی تھیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کراچی جیسے پتھر کا شہر ہی بن گیا ہو۔ سب چیزیں نہ صرف تھم گئیں بلکہ تنزلی کا شکار ہو گئیں۔ بھارتی شہر ممبئی ایک مثالی شہر بن گیا جبکہ کراچی کی روشنیاں مدھم سی ہو گئیں اور وہ ایک اجڑی بستی کا روپ دھار گیا۔ جہاں جا بجا کوڑے کرکٹ کے ڈھیر ،ٹوٹی سڑکیںستر کی دہائی کی کھٹارہ بسیں اور بے تکی آبادیوں کا پھیلاو شہر قائد کا مقدر ٹھہرا ۔نہ صرف یہ بلکہ حالیہ دنوں تک بھی ان کھٹارہ بسوں کی چھتوں پر محو سفر شہری دنیا کے کسی قدیمی قصبہ کی منظر کشی کرتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم ابھی تک ماضی کی صدی میں غوطہ زن ہیں ۔شہر کراچی کی اپنے شہریوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کا یہ عالم ہے کہ نہ صرف لاہور بلکہ پاکستان کے تمام شہروں سے نچلے درجہ پر آچکا ہے لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کی جانب سے شہریوں کو دی جانے والی سہولیات کی حالیہ تشہیری مہم کو دیکھ کر تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے پورے کراچی اور سندھ میں سب زبردست ہے اور ہم یورپ میں بستے ہیں۔اول تو ایسا سو فیصد کچھ نہیں اور اگر ہے بھی تو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے۔ اہم بات یہ کہ ان منصوبوں میں کوئی جدت نہیں البتہ یہ لاہور اور اسلام آباو طرز کے منصوبوں کا کاپی پیسٹ کہہ لیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ سند ھ کے اکثر و بیشتر شہریوں کا کہنا ہے کہ گذشتہ پینتیس سالوں سے سندھ میں براجمان پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے شہریوں کو دیا ہی کیا ہے۔ کسی بھی ملک کے گنجان آباد شہر کی خوبصورتی اور شہریوں کی سہولیات کا انحصار ایک پایئدار اور با اختیار میٹرو پولیٹن کارپوریشن پر ہوتا ہے اور میٹرو پولیٹن کارپوریشن کی بنیاد مقامی حکومت پر ہو تی ہے۔ چند روز قبل ملک میں دوسرے مرحلہ کے صوبہ سندھ کے ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں پوری قوم کی نظر کراچی شہر پر تھی جہاں ایک روز قبل سیاسی گٹھ جوڑ نے ایک نئی ڈرامائی صورتحال اختیار کی تو ایک بار پھر بلدیاتی انتخابات ملتوی ہوتے نظر آئے۔ اچانک ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کا دوبارہ یکجا ہونااور اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنا تو ٹھیک تھا لیکن بلدیاتی حلقوں پر اعتراض کے نام پر الیکشن ملتوی کروانے کی درخواست دینا نا مناسب تھا اور سندھ میں اپنی حکومت بچانے کے لئے ایم کیوایم کی ہاں میں ہاں ملانا پاکستان پیپلز پارٹی کی مجبوری تھی لیکن اندرون خانہ پی پی پی الیکشن کروانے کے حق میں تھی۔ یہ وجہ تھی کہ زرداری نے شاندارکھیلتے ہوئے الیکشن کمشن کے کندھے پر بندوق رکھ کر خود تو الیکشن میں بھر پور حصہ لیا اور اپنی دوسری بڑی حریف جماعت کا بایئکاٹ کروا کر کھڈے لائن لگوا دیا اور اس سارے منظر نامہ میں اہم بات یہ کہ کراچی کے ان بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کراچی نے سیاسی پنڈتوں کو حیران کر کے رکھ دیا۔یہ بات بھی طے ہے کہ اگر ایم کیو ایم بایئکاٹ نہ کرتی تو نتائج بالکل اس کے برعکس یا مختلف ہوتے ۔البتہ اب نتائج تقریبا مکمل ہوچکے ہیں۔ نتائج کی مکمل ترسیل سے قبل جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف کے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت پر دھاندلی کے الزامات اور احتجاج نے وقتی طور پر سیاسی فضا میں حرارت پیدا کر دی تھی لیکن سیاست میں لامحالہ آپکو مل بیٹھنا ہوتا ہے اور کراچی شہر کی حکومت سازی کے لیے جماعت اسلامی اور پی پی پی کو اس بات کا ادراک بہت جلد ہو گیا۔ اب سعید غنی اور حافظ نعیم الرحمن کی باہمی ملاقات اور مشاورت سے کراچی کی لوکل حکومت کے قیام کے راستے صاف ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ملک بھر میں حافظ نعیم الرحمن کو کراچی مئیر کے لئے ہارٹ فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے ۔میرے نزدیک دیا بھی جانا چاہییے کیونکہ مشرف دور میں بھی جماعت اسلامی کو کراچی کی خدمت کا موقع ملا تو اس وقت ناظم کراچی نعمت اللہ خان نے کراچی کے عوام کے پیسوں کو عوام پر حقیقی معنوں میں خرچ کر کے بھر پور پذیرائی حاصل کی تھی۔ اس وقت ایم کیو ایم نے بلدیاتی انتخابات کا بایئکاٹ کر رکھا تھا ایم کیو ایم کے نزدیک جب بھی وہ بائیکاٹ کرتے ہیں تو وہ دراصل کراچی کی حکومت دوسروں کودان کر رہے ہوتے ہیں مگر آج کل کے دور میں ہر شہر ی خوب جانتا ہے کہ ووٹ کا مستحق وہ ہے جو احسن کارکردگی دکھائے گا۔ 2015 ء میں ایم کیو ایم کے وسیم اختر کراچی کے میئر تھے لیکن المیہ یہ تھا اس وقت کی پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت محض اختیارات کی بنا پر وسیم اختر کی پیشہ وارانہ خدمت کی راہ میں رکاوٹ بن رہی تھی اور ان دونوں سیاسی جماعتوں نے زبانی جمع خرچ اور الزام تراشیوں سے کام چلایا جبکہ اس وقت بھی کراچی کے عوام کے حصہ میں وہی خواری اور محرومیاں دیکھنے کو ملیں۔ نئے سیاسی منظر اور کراچی شہر کی ابتر حالت کو بہتر بنانے کے تناظر میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ لوکل باڈیز کو اختیارات تفویض کیے جائیں تا کہ مستقبل قریب یا مستبل بعید میں عوام کے بنیادی حقوق غصب کرنے اورمخالفین کو عوام کی نظروں میں گندا کرنے کی سیاسی جماعتوں کی سازشوں کو نا کام بنانے کا چارہ کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ حافظ نعیم الرحمن کو کراچی کی خدمت کے لئے آگے آنے کا موقع دیا جانا چاہیئے تا کہ جماعت اسلامی کراچی کی روشنیاں بحال کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکے اور یہ تب ہی ممکن ہو گا جب صوبائی حکومتوں کا بلدیاتی حکومتوں کے حق پر ڈاکا ڈالنا ختم ہو گا اور ٹاپ سے ڈائون اقتدار کی حقیقی منتقلی نہیں ہو پاتی ۔