پنجاب کا خوبصورت تہوار۔لوھڑی


لبنیٰ صفدر
پنجاب کا خطہ خوبصورت رسومات اور روایات کے حوالے سے ہمیشہ سرسبز و زرخیز رہا ہے، دوہے، ماہیے، ٹپے، جذبات سے بھرپور پنجابی زبان کی شاعری اور گیت دل کی دْنیا میں ہلچل ضرور مچاتے ہیں، اگرچہ ہر خطہ کے اپنے اپنے رسم و رواج ہیں لیکن پنجابی کا ایک رنگ ڈھنگ ہے، پنجاب پر دشمنوں کی ہمیشہ نظر رہی، کیونکہ یہ خطہ ہر حوالے سے سرسبزوشاداب رہا ہے، یہاں کی زمین، یہاں کے دریا، یہاں پر پہاڑوں میں چھپے خزانے، دشمنوں کو ہمیشہ یہاں قابض ہونے کے خواب دکھاتے رہے، یہی وجہ ہے کہ یہ خطہ ہمیشہ دشمنوں کی بری نظروں کا شکار بھی رہا، کئی بار اجڑا اور پھر اسی آن شان سے دوبارہ زندہ ہوگیا، اگرچہ پنجاب میں طرح طرح کے تہوار منائے جاتے ہیں، ہر تہوار پنجاب کے ماتھے کا جُھومر ہے، ان خاص تہواروں میں ایک خاص الخاص اور جاندار تہوار لوھڑی ہے، لوھڑی کا تہوار چند روز قبل گزر چکا ہے، بوجوہ ان دنوں میں اس خوبصورت تہوار کے بارے میں لکھنے کا موقع نہ مل سکا، ہماری نئی نسل کو ہمارے ماضی کی  خوبصورت روایات سے روشناس کروانا ضروری ہے، میں نے ضروری سمجھا کہ پنجاب کی نوجوان نسل کو اس خوبصورت تہوار کے بارے میں علم ہونا چاہئے، اس شاندار اور جاندار تہوار کے حوالے سے کئی طرح کی روایات ہیں، یہ تہوار ایک موسمی تہوار ہے،جس دن کماد(گنے) کی فصل پک کر تیار ہوتی ہے اور کاٹی جاتی ہے اس سے ایک دن پہلے سارے کسان مل کر خود تھوڑا گنا کاٹ کر اس کا ذائقہ چیک کرتے ہیں اس طرح جس طرح باقی ہر فصل کا کسان اپنی اپنی فصلوں کا جائزہ لیتا ہے اسی طرح کسان یہ دیکھتے ہیں کہ گنے کی فصل اس سال کتنی میٹھی ہوئی ہے، اگر ذائقہ میٹھا ہو تو سب ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں، گندم کے بعد پنجاب کی اہم فصلوں میں سے ایک ہے جس کی آمدن پر سالانہ اخراجات کا دارومدار ہوتا ہے گائوں میں کسی مخصوص میدان میں آگ کا الائو جلایا جاتا ہے، اس آگ کو بھڑکانے کے لئے اس میں اصلی دیسی گھی، کماد، چینی وغیرہ کا چھڑکائو کیا جاتا ہے، ایک خیال کے مطابق یہ عمل اگنی دیوتا کو خوش کرنے کے لئے کیا جاتا ہے، گائو ں کے بچے اکٹھے ہوکر ہر گھر کے سامنے جاکر لوھڑی کے گیت گاکر لوھڑی مانگتے ہیں، کوئی گھر ان بچوں کو خالی ہاتھ دروازے سے نہیں جانے دیتا، پیسے، اناج، چاول اور دیگر چیزیں ان بچوں کو دی جاتی ہیں سب چیزیں اکٹھی کرنے کے بعد یہ بچے شام کو اس الائو والے میدان میں اکٹھے ہوکر کھاتے ہیں گیت گاتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں، دوسری روایت کے مطابق یہ ایک رومانوی دن بھی ہے، گائوں کے محبت کرنے والے نوجوان اس دن آگ کا الائو جلا کر کمان کو ہاتھ میں لے کر اعلان کرتے ہیں کہ فلاں لڑکی مجھے پسندہے میں آج اس سے شادی کا خواہش مند ہوں، اسے جاکر بتا دو اگر وہ راضی ہے تو آج ہی اس سے شادی کروں گا، سب سے مضبوط اور خوبصورت روایت جو لوھڑی سے منسوب ہے اور اسی کو لوھڑی کے تہوار کا سب سے زیادہ خوبصورت اور مضبوط قدیمی حوالہ سمجھا جاتا ہے، وہ پنجاب کی تاریخ کے سب سے بہادر بیٹے اور نوجوان عبداللہ بھٹی عرف دلا بھٹی سے منسوب ہے، پنڈی بھٹیاں سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پنجاب کی دھرتی ماں نے اس جیسا دلیر اور بہادر  نوجوان دوبارہ نہیں جنا، کہتے ہیں جب پنجاب سمیت پورے ہندوستان میں مغل حکمرانوں کی حکومت تھی تو یہ حکمران نہ صرف علاقے کی زمینوں اور فصلوں پر قبضہ کر لیتے تھے بلکہ یہاں کی خوبصورت لڑکیوں کو بھی اٹھا کر لے جاتے تھے، ایک بار ایک ہندو خاندان کی دو لڑکیوں سندری اور مندری کو ایک مسلمان زمیندار اٹھا کر لے گیا ان لڑکیوں کے چچا نے اس زمیندار کا قرض واپس نہ کیا تھا جس کے نتیجہ میں ان دو لڑکیوں کو اٹھا لیا گیا اس موقع پر انتہائی دلیرانہ اور جرأت مندانہ قدم دلا بھٹی نے اٹھایا اور ان دونوں لڑکیوں کو بازیاب کروا کر لے آیا، دلا بھٹی کے بارے میں اگلا کالم تفصیل سے لکھوں گی، یہ وہی لوھڑی کا دن تھا، اس موقع پردلا بھٹی نے لکڑیاں اکٹھی کرکے آگ جلائی اور شکر اور تِل دونوں کی جھولی میں ڈال کر لوھڑی کی رسم ادا کی، اس موقع پر دلا بھٹی نے جو اشعار گائے وہ برسوں لوگوں کی زبان پر رہے، بھنگڑے ڈالے جاتے ہیں، دلا بھٹی و ہ عظیم ہیرو ہے جس نے ہر مذہب اور رسم سے بالاتر ہوکر صرف انسانیت کی خدمت کی، ذرا دیر سے سہی لیکن تمام پنجابیوں کو لوھڑی کا تہوار مبارک ہو،
سندرمندبے ہو
تیرا کون وچارآہو
دلا بھٹی والا۔۔ہو
دلے دی دھی ویاہی۔۔ہو
سیرشکر پائی۔۔ہو
کڑی دالال پٹاکا۔۔ہو
کڑی دا سالو پھاٹا۔۔ہو
سالو کون سمیٹے؟
چاچا گالی دیسے۔
چاچے چوڑی کٹی۔
زمینداراں لٹی۔
زمیندار سدھائے۔
بم بم پولے آئے۔
اک پولا رہ گیا۔
سپاہی پھر کے لے گیا۔
سپاہی نے ماری ایٹ۔
پاوے روتے پاوے پٹ۔
سانوں دے لوھڑی۔
تیری جیوی جوڑی۔

ای پیپر دی نیشن