شاہد آفریدی اور جہانگیر خان کا دورہ آسٹریلیا 

Jan 21, 2024

طارق محمود مرزا

گزشتہ دنوں سابق کرکٹ کپتان شاہد آفریدی اور سکوائش کے سابق عالمی چیمپین جہانگیر خان، شاہد آفریدی فاؤنڈیشن کے لیے چندہ جمع کرنے آسٹریلیا تشریف لائے۔ شاہد آفریدی فاؤنڈیشن آسٹریلیا کے چیرمین سید عاطف فہیم نے نہایت منظم انداز میں پانچ بڑے شہروں میں تقریبات کا اہتمام کیا جس میں سینکڑوں لوگوں نے شرکت کی اور شاہد آفریدی فاؤنڈیشن کی فلاحی خدمات کو سراہتے ہوئے فراخ دلی سے چندہ دیا۔ ان تقاریب سے قبل سڈنی میں شاہد آفریدی اور جہانگیر خان کی پریس کانفرنس تھی۔ پریس کانفرنس کا پہلا سوال میں نے جہانگیر خان سے کیا '' ایک دور میں سکوائش کا کھیل پاکستان کی پہچان تھا آپ کے والد روشن خان، اس کے بعد آپ اور بعد میں جان شیر خان نے پاکستان کا جھنڈا برسوں دْنیا میں بلند کیے رکھا۔ اب کیا ہو گیا ہے کہ عرصے سے پاکستان کا کوئی نیا کھلاڑی منظر عام پر نہیں آیا۔ ''میرے سوال کا جواب دیتے ہوئے سابق چیمپین نے کہا '' ہمارے ملک میں کھیلوں کی وہ سہولتیں میسر نہیں ہیں جو ترقی یافتہ ممالک میں ہیں بلکہ بنیادی ڈھانچہ بھی میسر نہیں ہے اس کے لیے سنجیدگی سے کام کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ ہم نے اپنے دور میں ذاتی بل بوتے پر یہ کامیابیاں حاصل کی تھیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک میں کھیلوں کے لیے سہولیات عام کی جائیں تاکہ نوجوان صحت مند سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں اور آگے چل کر ملک و قوم کا نام روشن کر سکیں۔'' مقاصد بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ہماری فاؤنڈیشن پاکستان کے دور دراز علاقوں میں صحت، تعلیم،پینے کے صاف پانی اور ایمرجنسی کی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ ہماری ٹیم ایسی جگہوں پر یہ سہولتیں مہیا کرنے کی کوشش کر رہی ہے جہاں ان سہولتوں کا مکمل فقدان ہے۔کراچی میں کرکٹ اکیڈمی قائم کرنے کے حوالے سے ڈاکٹر خرم کیانی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے شاہد آفریدی نے بتایا کہ میں نے ارباب اختیار سے کرکٹ اکیڈمی کے لیے زمین مہیا کرنے کی درخواست کی تھی لیکن کہیں بھی شنوائی نہیں ہوئی۔ اس پر میں نے پوچھا '' مجھے وہ پریس کانفرنس یاد ہے جس میں پیپلز پارٹی کے وزیروں نے آپ سے اکیڈمی کی لیے زمین فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا اسی طرح میئر کراچی وسیم اختر کا بیان بھی مجھے یاد ہے جس میں انہوں نے اپنے طور پر اس زمین کی فراہمی کا وعدہ کیا تھا۔ان وعدوں کا کیا ہوا۔'' شاہد آفریدی کہنے لگے ''لگتا ہے آپ بہت عرصے سے پاکستان نہیں گئے ان وعدوں کا وہی ہوا جو پاکستان میں سیاست دانوں کے وعدوں کا ہوتا ہے۔'' 
شاہد آفریدی فاؤنڈیشن کی فنڈ ریزنگ کی مہم سے متعلق بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں کا رد عمل ملا جلا ہے۔ جب میں نے شاہد آفریدی فاؤنڈیشن کے حوالے سے سوشل میڈیا پر پوسٹ لگائی تو کچھ لوگوں نے سراہا۔ جبکہ کچھ احباب کا رد عمل مختلف تھا۔مثلا ڈنمارک سے میرے دوست شوکت علی نے اپنے تاثرات یوں ظاہر کیے ''مرزا صاحب ایمانداری سے بتاؤں مجھے ان فنڈ ریزنگ ایونٹ سے چڑ ہونے لگی ہے۔ میں نے آخری بار جس چندہ جمع کرنے والی مہم میں بھرپور انداز میں شرکت کی تھی وہ ڈیم کے لیے فنڈز اکٹھا کرنا تھا اس کا انجام دیکھ کرمیں نے ارادہ کر لیا کہ آج کے بعد کسی فنڈ ریزنگ ایونٹ کا حصہ نہیں بنوں گا۔ ہم تارکین وطن چندہ دینے کے لیے ہی رہ گئے ہیں۔پاکستان کے ایک مشہور صحافی کو میں نے ایک پروگرام میں کہتے سنا کہ ہم نے تارکین وطن کو پیسہ کما کر ملک بھیجنے کے لیے باہر بھیجا ہے یہ ہمیں مشوروں سے نہ نوازا کریں۔ جب بھی ملک پر کوئی مصیبت آتی ہے تو تارکین وطن یاد آ جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے حقوق پر غور کرنے والا کوئی نہیں ہے۔اْلٹا آواز اٹھانے کی پاداش میں وطن واپسی پر سوال جواب کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
میں نے جواب دیا '' کچھ لوگوں کی تلخ باتوں کے باوجود پاکستان میں ہزاروں ادارے اور لاکھوں لوگ اوورسیز پاکستانیوں کی مدد سے جڑے ہیں۔ انھیں بنیادی سہولتیں فراہم کرنے اور ان فلاحی اداروں کو چلانے کے لیے بیرون ملک پاکستانیوں کا کردار ہمیشہ سے اہم رہاہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن انسانیت کی خدمت کا جذبہ قائم و دائم رہناچاہیے۔'' میری اس بات کا جواب یوں دیا گیا'' جب تک نظام درست نہیں ہوگا۔چوری اور کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوگا غربت کبھی ختم نہیں ہوگی۔ تارکین وطن کی عمریں بیت گئیں پاکستان میں زر مبادلہ بھیجتے بھیجتے لیکن ملک پھر بھی مقروض ہوتاچلا گیا۔ہم چندہ دینے والی قوموں میں تو سر فہرست رہیں گے جبکہ نظام کے کرپٹ ہونے کی وجہ سے بدترین قوموں میں بھی سرفہرست رہیں گے۔ ''
ایک اور دوست کا نقطہ نظر سامنے آیا جو سیاست سے لتھڑا تھا۔فرمانے لگے ''شاہد آفریدی ایک سکہ بند پٹواری ہے یعنی نون لیگ کا ہمدرد۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کی جو موجودہ صورتحال ہے وہ بھی اس کی وجہ سے ہے کیونکہ میرٹ سے ہٹ کر سلیکشن کی گئی ہے سیاسی اور ذاتی پسند پر۔خدارا ان بہروپیے اور کرپٹ لوگوں کو سپورٹ کرنا بند کیجئے اگر اپ پاکستان سے مخلص ہیں۔'' یہ انتہا پسندانہ رائے ہے۔ ان صاحب کے مطابق ایسی فلاحی تنظیم کی اعانت پاکستان سے خیانت ہوگی۔ سیاست نے ہمیں کس قدر تقسیم کر دیا ہے اور ہمارے اندر نفرت کا زہر بھر دیا ہے کہ ہم بھلائی اور نیکی کے کاموں میں بھی سیاست اورنفرت کا پہلو ڈھونڈ لیتے ہیں۔سیاست تو بذات خود خدمت کا نام ہے اس میں نفرت و عصبیت شامل کر کے سیاست کو بھی زہر آلود بنا دیا گیا ہے۔اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ فلاحی کام کرنے والوں کو بھی سیاست کی عینک سے دیکھا جاتا ہے اگر وہ شخصیت یا تنظیم سیاسی ہم رنگ نظر آئے تو اس کے کام کو شرف قبولیت بخشا جاتا ہے ورنہ نہیں۔جیسے مسلم لیگ والے شوکت خانم ہسپتال کو چندہ دینے سے ہچکچاتے ہیں حالانکہ وہاں ہر شخص کی بلا تخصیص جان بچائی جاتی ہے۔ اسی طرح پی ٹی آئی والے شاہدآفریدی فاؤنڈیشن یا کسی ایسی تنظیم کو مدد کرنے کے حق میں نہیں ہیں جن کا جھکاؤ مسلم لیگ کی طرف ہو۔ یوں پورا ملک تقسیم در تقسیم کا شکار ہے اور نفرت و عداوت کا بازار گرم ہے۔ جبکہ ملک معاشی، سماجی اور خارجی لحاظ سے شکست و ریخت کا شکار ہے۔ اب تو یہ حالت ہوگی ہے کہ ہندوستانی تو ایک جانب بنگالی، افغانی اور نیپالی تک ہمیں طعنے دیتے ہیں کہ آپ کا ملک بال بال قرضے میں جکڑا ہوا ہے اور کسی بھی وقت دیوالیہ ہو سکتا ہے۔ وطن کی یہ حالت دیکھ کر ہم سب خون کے آنسو روتے ہیں لیکن ہمارے بس میں کچھ نہیں۔ سوائے اس کے، کہ اپنے ان مظلوم و مجبور بہن بھائیوں کی جو ممکن ہو خدمت کرتے رہیں بغیر کسی صلے اور ستائش کی تمنا کے۔ظالموں نے اگر اپنا ظلم نہیں چھوڑنا تو اچھائی کرنے والوں کو بھی اپنی اچھائی ترک نہیں کرنی چاہیے۔ بقول فراز 
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
 اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

مزیدخبریں