فضائی آلودگی ایک عالمی مسئلہ ہے ، ماحول کو متاثر کرنے کے علاوہ اس کے صحت پر بہت سے اثرات مرتب ہوتے ہیں ، سرد موسم کے آتے ہی ملک میں ماحولیاتی آلودگی کے سبب ایک سطح تک آلودہ تہہ جم جاتی ہے جس سے سورج کی روشنی زمین تک نہیں پہنچ پاتی ، گذشتہ ہفتے اس بات کا مشاہدہ ہوائی سفر کے دوران ہوا جب میں لاہور سے کراچی کے لئے سفر کر رہا تھا ، لاہور سے جیسے ہی طیارے نے اُڑان بھری اور آلودہ تہہ کو عبور کیا تو سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا ، میں سورج کی روشنی کو دیکھ کر چونک گیا کہ شدید سردی میں زمین پر لوگ سورج کی روشنی اور اس کی تپش حاصل کرنے سے محروم ہیں ، لیکن آلودگی کی تہہ سورج اور زمین کے مابین حائل ہے ۔
فضائی آلودگی سے متعلق نئی تحقیق میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ انسانی دماغ پر بُری طرح اثر انداز ہوتی ہے جس سے فیصلہ کرنے کی صلاحیت کمزور کرنے کے علاوہ ذہنی صحت کے مسائل ، بچوں اور بڑوں کی بُری تعلیمی کارگردگی اور لوگ جرائم کی طرف راغب ہو جاتے ہیں ، جہاں ہمارے ملک کا نظام فضائی آلودگی کی وجہ سے تعطل کا شکار ہو جاتا ہے وہیں ملک کے طول وعرض میں اسٹریٹ کرائم ، قتل، کمسن بچیوں سے جنسی زیادتی ، ڈاکے، چوریاں اور ریپ جیسے جرائم دیکھنے کو ملتے ہیں ، محققین کہتے ہیں کہ آلودگی کے بادل فضاء کے رخ کے مطابق ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتے ہیں ، اور جہاں یہ آلودگی ہوا کے رخ سے پہنچتی ہے وہاں جرائم میں اضافہ اور دھوکا دینے کارجحان بھی زیادہ ہوتا ہے ، جنوبی کیلیفورنیا کی یونیورسٹی کی محقق ڈائینا یونان نے بارہ سال تک تحقیق کرتے ہوئے جرائم کا تعلق فضا ء میں موجودایک خاص ذرہ PM2.5 کے ساتھ دیکھا اور تصدیق کی کہ جن علاقوں میں فضائی آلودگی زیادہ تھی وہاں جرائم بھی زیادہ ہو رہے تھے۔
ایسے عوامل زیادہ فکر کے باعث اس لئے بھی ہیں کہ ملک بھر کی ستر فیصد آبادی آلودہ فضاء میں سانس لے رہی ہے ، عالمی ادرہ ء صحت کے مطابق فضائی آلودگی میں ہر دس میں سے نو افراد سا نس لے رہے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق ہر سال فضائی آلودگی کی وجہ سے 70 لاکھ افراد اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ، عالمی ادارہ ء صحت نے فضائی آلودگی کو دنیا میں صحت عامہ کے لئے سنگین خطرہ قرار دیا ہے، نئی تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی کی وجہ سے دنیا میں 2012 ء میں 70لاکھ افراد ہلاک ہوئے ، انسانی سرگرمیاں اور قدرتی آفات اور کئی دوسرے عوامل ماحولیاتی آلودگی کا سبب ہیں ، جس کے اثرات دور رس ہیں جو کہ فطرت اور زمین پر بسنے والے ہر جاندار پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔
فضائی آلودگی سانس ، دمہ اور پھیپھڑوں کے کینسر کا سبب بنتی ہے ، آلودگی سے کرہء ارض کی مجموعی صحت پر طویل مدتی اثرات مرتب ہوتے ہیں ، ریسرچ سے یہ بات علم میں آئی ہے کہ آب وہوا کی تبدیلیوں کے باعث سر درد ، ڈیمنشیا، پٹھوں کی متعدد بیماریوں اور پار کسنزجیسے اعصابی امراض کی علامات بدترین شکل اختیار کر سکتی ہیں جب کہ فالج کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ، فضائی آلودگی کے فوری اثرات کے علاوہ عام افراد کی زندگی پر اس کے مزید منفی اثرات بھی ہو سکتے ہیں ، دنیا کے خطرناک فضائی آلودگی والے ممالک میں پاکستان کا بھی شمار ہوتا ہے ، عالمی ادارہ صحت کے رہنما اصولوں کے مطابق پاکستان میں فضائی معیار کو غیر محفوظ قرار دیا جارہا ہے ،ملک میں ہو ا کے معیار کی تنزلی کا سبب گاڑیوںکے دھوئیں کا اخراج ، ٹھوس فضلہ جلانے اور صنعتی اخراج ہیں ، موسمی تغیرات کا آغاز دسمبر سے شروع ہوتا ہے جس میں فضائی آلودگی بلند ترین سطح تک پہنچ جاتی ہے ، موصول شدہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پشاور ، راولپنڈی ، کراچی ، اسلام آباد اور لاہور میں فضائی آلودگی مسلسل بلند ترین سطح پر ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے مہلک اثرات کو کم کرنے پر کام کرنے والی تنظیم ’’ فیئر فنانس پاکستان ‘‘ کے مطابق پاکستان میں فضائی آلودگی اور اس سے متعلقہ بیماریوں کی وجہ سے ہر سال تقریباً ایک لاکھ 28 ہزار افراد لقمہء اجل بن جاتے ہیں ، مجموعی طور پر فضائی آلودگی ایک سنگین مسئلہ ہے ، جس سے زیادہ تر غریب طبقہ کے لوگوں کی صحت اور بہبود متاثر ہوتی ہے ، یہی نہیں ماحولیاتی آلودگی ہمارے سیارے کے ماحولیاتی نظام کے نازک توازن کو خطرے میں ڈال دیتا ہے ، موسموں کے تغیر کے ساتھ انسانی رویے اور فیصلے بھی تغیر پذیر ہو جاتے ہیں ، ان سے صرف جذبات ہی نہیں بلکہ دماغی صحت پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں ۔
سائنسی اعتبار سے سردیوں میں چیزیں سکڑتی ہیں اور گرمیوں میں پھیلتی ہیں ، اسی اصول کے تحت سردیوں میں آلودگی ایک خاص سطح تک جم جاتی ہے جسے ہم اسموگ ، دھنداور فضائی آلودگی تصور کرتے ہیں گرمیوں میں یہ آلودگی سائنسی اعتبار سے پھیل جانے کی وجہ سے نظر نہیں آتی ،لہذا موسم سرما میں زیادہ تر لوگ ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہین جسے سیزنل ایفیکٹو ڈس آرڈر ( ایس اے ڈی ) کے نام سے جانا جاتا ہے ، ماحولیاتی عدم توازن پیدا ہونے سے کرہء ارض کی مجموعی صحت پر طویل مدتی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کے لئے ایک مربوط اور قابلِ عمل منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ، جس میں حکومتیں ، صنعتیں اور بین الااقوامی تعاون شامل ہو، لہذا حکومتوں اور صنعتوں کو قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع میں سرمایا کاری کرنی چاہئے، مزید برآں حکومت کوصنعتوں سے آلودگی کو محدود کرنے اور پائیدار طریقوں کو فروغ دینے کے لئے سخت اقدامات اور ضابطے بنانے اور نافذ کرنے ہوں گے ،اس سلسلے میں آلودگی کے نتائج کے بارے میں عوامی آگاہی اور بیداری کو بڑھانا بہت ضروری ہے۔