پاکستان، ایران کشیدگی کا پس منظر

حالیہ ایران، پاکستان کشیدگی سے تین ہفتے قبل میں نے بلوچستان پر ایک تفصیلی کالم لکھا تھا، جس میں بلوچی شدت پسندوں کے اسلام آباد میں من گھرٹ احتجاجی مظاہرے کے پس پردہ انکی ریشہ دوانیوں کے اصل محرکات قلم زد کئے گئے تھے۔ موجودہ صورتحال بھی اس بات کی متقاضی ہے کہ ان پر مذید روشنی ڈالی جائے، کیونکہ پچھلی ایک دہائی سے خبری پیمانے تقریباً مسخ ہو کر رہ گئے ہیں؛ خبر کے چھ ’’ک‘‘ میں سے صرف ’’کیا ہوا‘‘ کی رپورٹنگ ہوتی ہے، خبر کے اندر کیوں ہوا، سمیت باقی تفصیلات نہ ہونے کے باعث قاری اور سامع اصل حقائق کا ادراک نہیں کر پاتا۔ اور صحافت بھی اب حقائق کی بجائے مخصوص ترجمانی کا ہی سمبل بن کر رہ گئی ہے۔ 

پاکستان اور ایران میں 74 سالوں سے ایک گہری دوستی چلی آ رہی ہے۔ اس دوستی کا باقاعدہ معاہدہ 1950ء میں ہوا تھا جسکے بعد متعدد مواقع پر یہ دونوں اسلامی ملک اپنی دوستی نبھاتے رہے ہیں۔ پاکستان اور ایران کے مابین  950 کلومیٹر طویل سرحد ہونے کے باوجود کوئی سرحدی تنازعہ موجود نہیں ہے لیکن اسی سرحدی پٹی پر دونوں طرف موجود علیحدگی پسند دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیاں دونوں ممالک کیلئے درد سر بنتی رہی ہیں۔پاکستان کا صوبہ بلوچستان اور ایران کا صوبہ سیستان دونوں ایک دوسرے سے ملحق ہیں جو اسی 950 کلومیٹر کی ایران اور پاکستان کی سرحد پر واقع ہیں۔ ان دونوں ایرانی اور پاکستانی صوبوں میں بلوچ قوم آباد ہے جو آزادانہ ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں آتے جاتے ہیں انکی آپس میں رشتے داریاں ہیں حتی کہ ان صوبوں کے کئی شہروں میں ان کا ایک گھر بلوچستان اور دوسرا سیستان میں ہوتا ہے۔ ایرانی صوبہ سیستان میں آباد کار بلوچی، سْنی العقیدہ ہیں اور ایرانی حکومت شیعہ مسلک پر مبنی ہے جس کے باعث سیستانی بلوچی  ایرانی حکومت پر امتیازی سلوک کا الزام عائد کرتے ہوئے اپنی مرکزی حکومت کیخلاف دہشت گردانہ کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ ایران اور پاکستان میں دونوں طرف موجود یہ بلوچی قوم 74 سال سے ہی دونوں ملکوں میں یہ مسلح کاروائیاں کر رہی ہے۔ ایران کے صوبہ سیستان میں انہوں نے بلوچ حقوق کے نام پر جیش العدل نامی تنظیم بنا رکھی ہے۔ جیش العدل نامی تنظیم نے 2018ء میں ایرانی بارڈر گارڈ کے 12 اہلکار اغوا کر لیے جنہیں پاکستانی سیکورٹی فورسز کی مدد سے بازیاب کرایا گیا تھا۔ جرنل آف ساوتھ ایشین سٹڈی کیمطابق ان ایرانی بلوچوں کی دوسری تنظیم جندال اللہ ہے جس نے 2007 ء میں بلوچستان کے پہاڑی علاقے میں 21 ٹرک ڈرائیور اغوا کر لیے۔ انہیں بھی پاکستان نے بازیاب کرایا تھا۔ جندال اللہ کے مرکزی لیڈر عبدالمالک ریگی کو 2010ء میں دوبئی سے کرغرستان جاتے ہوئے ائرپورٹ سے ایران نے گرفتار کر لیا جس پر ایرانی سفیر نے برملا کہا کہ یہ گرفتاری پاکستانی مدد کے بغیر ممکن نہ تھی، عبدالمالک ریگی کے مرنے کے بعد اس کا بھائی عبدالحامد ریگی جندال اللہ کا سربراہ بن گیا۔ اسے بھی پاکستان نے گرفتار کر کے ایران کے حوالے کر دیا تھا۔ مارچ 2019 ء میں انہوں نے سیستان میں ایرانی انقلابی گارڈز پر حملہ کر کے 27 گارڈ ہلاک کر دئیے تھے۔ 
ان علیحدگی پسند دہشت گرد بلوچوں کی جو تنظیمیں پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں سیکورٹی فورسسز کیخلاف شدت پسندانہ کارروائیاں کرتی ہیں ان تنظیموں نے اپنے خفیہ ٹھکانے ایران کے بلوچستان سے ملحقہ صوبہ سیستان میں بنا رکھے ہیں۔ ان تنظیموں میں بلوچستان لیبریشن آرمی (بی ایل اے ) اور بلوچستان لیبریشن فرنٹ ’’بی ایل ایف‘‘  شامل ہے۔ بلوچستان میں ان دونوں کے علاوہ دیگر شدت پسند تنظیموں کا ثبوت بھی پایا جاتا ہے۔ جنہوں نے 2018ء میں ایک اتحاد بنا کر اسے ’’براس‘‘ کا نام دیا جو (بلوچ، راجی، اجوئی، سانگر) بنتا ہے جن میں بلوچ لیبریشن آرمی، بلوچ ریپبلک آرمی، بلوچستان فرنٹ اور بلوچ ریپبلک گارڈ شامل تھے۔ اسی اتحاد نے 2018ء میں کراچی کے اندر چینی قونصل خانے پر خودکش حملہ کیا تھا۔ 18 اپریل 2019ء کو انہوں نے گوادر کے علاقہ اورماڑا میں ائرفورس، نیوی اور کوسٹ گارڈ کے 14 اہلکاروں کو بسوں سے اتار کر گولیوں کا نشانہ بنایا تھا۔ جسکے بعد اْس وقت کے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے 950 کلومیٹر پاک، ایران سرحد پر باڑ لگا کر بارڈر بند کرنے کا اعلان کیا۔ 
مئی 2023ء میں ان دہشتگردوں نے بلوچستان کے ضلع کیچ میں پاکستانی سیکورئی فورسسز کی چوکی پر حملہ کر کے دو پاکستانی فوجیوں کو شہید کر دیا تھا۔ یہ دہشت گرد بلوچی، بلوچستان میں کارروائی کر کے ایرانی صوبہ سیستان میں چھپ جاتے ہیں اور انکے لواحقین ان کو لاپتہ قرار دیکر اْلٹا حکومت پر الزام تراشی کر کے پاکستان دشمن ایجنڈے کی تکمیل کرتے ہیں کیونکہ سیستان میں انڈین را کا نیٹ ورک موجود ہے انڈین جاسوس کلبھوشن سیستان کے راستے سے ہی بلوچستان میں داخل ہوتا گرفتار ہوا تھا۔ ایک محل وقوع ہونے کے باعث دونوں صوبے طویل پہاڑی علاقے ہیں۔ یہ ایک ملک میں  اپنی کارروائیاں کر کے دوسرے ملک کے پہاڑوں پر جائے پناہ حاصل کرتے ہیں۔ 2019ء میں ایرانی صدر حسن روحانی اور پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے ان دہشتگردوں کیخلاف دونوں ممالک کی مشترکہ فورس بنانے کا عزم بھی کیا تھا۔ نیو لائنز انسٹی ٹیوٹ کیمطابق بلوچ لبریشن آرمی کا وجود 2000ء میں سامنے آنا شروع ہوا تھا جب انکی شدت پسندانہ کارروائیوں میں تیزی آئی، پھر 2006ء میں پاکستان کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے ایک فوجی کارروائی کے دوران سرکردہ بلوچی راہنما نواب اکبر بگٹی کو ختم کر دیا تھا جس کے بعد بلوچ لبریشن آرمی کو دہشت گرد تنظیم ڈکلیئر کر دیا گیا۔ پھر برطانیہ اور امریکہ نے بھی بلوچ لبریشن آرمی کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر لیا تھا۔
  پاکستان اور ایران کے ان دونوں صوبوں، بلوچستان اور سیستان میں آباد یہ بلوچ کئی دہائیوں سے ان صوبوں میں امن و امان قائم نہیں ہونے دے رہے جسکے باعث وہاں مسلسل جہالت اور مستقل بے روزگاری نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ وہاں کا واحد روزگار سمگلنگ ہے۔ یہ بلوچی تنظیمیں سمگلنگ سے دولت اکٹھی کر کے دہشتگردانہ ایجنڈے کی تکمیل کرتی ہیں۔ ایران، امریکی پابندیوں اور بلیک لسٹ ہونے کے باعث اپنی اشیائے خوردونوش اور ضروریات زندگی کی دیگر اشیاء کی بیرونی منڈیوں میں قانونی طور پر خریدوفروخت نہیں کر سکتا۔ 150 ایرانی ریال، پاکستانی ایک روپے کے برابر ہے۔ ایرانی سیمنٹ کی سمگل شدہ بوری 500 پاکستانی روپے کی بلوچستان میں مل جاتی ہے جبکہ پاکستان میں اس کی قیمت 12 سو روپے تک ہے۔ اسی طرح سے کوکنگ آئل اور ایرانی پٹرول بھی بلوچستان میں سمگل کیا جاتا ہے۔ اس سے ایران کو زرمبادلہ تو حاصل ہو جاتا ہے لیکن ڈالر کی غیر قانونی ترسیل سے پاکستانی معیشت عدم توازن کا شکار ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف علیحدگی پسند بلوچ تنظیمیں سمگلنگ کی اس دولت سے پاکستانی سیکورٹی فورسسز کے خلاف مسلح کارروائیاں کرتی رہتی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن