میانوالی سنٹرل جیل سے جب شیخ مجیب الرحمن کو لاہور لایا گیا تو اس بارے میں شیخ مجیب الرحمن کو کچھ نہیں بتایا گیا تھا کہ انہیں کہاں منتقل کیا جارہا ہے ،لاہور میں انتہائی سخت حفاظتی انتظامات میں بہت ہی خفیہ طریقہ سے انہیں گورنر ہائوس لایا گیا ،جہاں میں نے ہی شیخ مجیب الرحمن کو آگاہ کیا کہ انہیں رہا کیا جارہا ہے اور اعلیٰ حکام نے آپ سے پوچھا ہے کہ آپ کہاں جانا چاہتے ہیں جس پر شیخ مجیب الرحمن نے مجھ سے کہا کہ میں کہیں بھی نہیں جاناچاہتا ،میں تو اپنے وطن پاکستان میں ہوں اور یہیں رہنا چاہتا ہوں متعلقہ حکام سے رابطہ کریں اور انہیں بتائیں کہ ابھی وقت ہے کہ ہم پاکستان کو مکمل ٹوٹنے سے بچالیں اور کم ازکم شرائط کے تحت ہم ایک رہ سکتے ہیں۔ ایک مرکزی حکومت اندرونی صوبائی خود مختاری کے ساتھ۔ پاکستان اب بھی بچ سکتا ہے اگر میرا جہاز پاکستان سے لے کر مجھے اُڑ گیا تو پھر ہم دوبارہ کبھی بھی متحد نہیں ہوسکیں گے ۔
پاکستان اب بھی بچ سکتا ہے اگر میرا جہاز پاکستان سے لے کر مجھے اُڑ گیا تو پھر ہم دوبارہ کبھی بھی متحد نہیں ہوسکیں گے ۔ یہ بات کرتے ہوئے شیخ مجیب الرحمن نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے دل پر رکھا ہوا تھا وہ یہ ساری باتیں کرتے ہوئے مسلسل ملک غلام جیلانی کی طرف دیکھ رہے تھے ،ملک غلام جیلانی نے شیخ مجیب الرحمن سے کہا کہ اس وقت ایسے کیسے ہوسکتا ہے تو شیخ مجیب الرحمن نے کہا کہ آپ بھٹو سے رابطہ کریں اور اس سے کہیں کہ شیخ مجیب الرحمن پاکستان کے چند اہم سیاسی راہ نمائوں سے ملاقات کرنا چاہتا ہے ،شیخ مجیب الرحمن نے مجھے کہا کہ اگر ان سیاست دانوں سے میری ملاقات ہوجاتی ہے توہم پاکستان کو متحد رکھنے کی کوئی راہ نکال لیں گے ،جن راہ نمائوں سے شیخ مجیب الرحمن نے ملاقات کی خواہش ظاہر کی ان میں مولانا سید ابوالاعلی مودودی ،میاں ممتاز محمد خان دولتانہ ،پیر صاحب آف پگاڑا شریف ،ائیر مارشل (ر) اصغر خان ،نوابزادہ نصراللہ خان اور مشرقی پاکستان کے سیاسی رہنما نور الامین شامل تھے ،جب شیخ مجیب الرحمن کی یہ خواہش ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ٹکا خان تک پہنچائی گئی تو انہوں نے مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں سے ملاقات کرانے کی اجازت دینے سے واضح انکار کردیا ،اعلانیہ اور واضح طور پر تو نہیں لیکن بھٹو اور جنرل ٹکا خان کا انداز ایسے تھا کہ اب کچھ نہیں ہوسکتا۔
کافی تگ ودو کے بعد اعلیٰ سطحی گفتگو میں ناکامی حاصل ہونے پر میں نے بہت افسردگی کے ساتھ جب شیخ مجیب الرحمان کو اس صورت حال سے آگاہ کیا تو شیخ مجیب الرحمن نے مجھ سے کہا کہ اچھا میںپاکستان بچانے یا متحد کرنے کی ایک آخری کوشش کرتا ہوں آپ اپنے حکمرانوں سے کہہ دو کہ وہ مجھے اسلام آباد میںوزیر اعظم ہائوس میں پہنچا کر مشرقی اور مغربی پاکستان کے عوام اورپوری دنیا کو ریڈیو اورٹی وی پر خطاب کرنے کی اجازت دے دیں ،یہ خطاب بے شک جو ریکارڈ شدہ ہوجس میں یہ اعلان کرسکتا ہوں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بطور قائم مقام صدر پاکستان اور سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر 1970ء میں ہونے والے عام انتخابات کے نتائج پانچوں صوبوں (مشرقی پاکستان ،پنجاب ،سندھ ، سرحد اور بلوچستان )کو بحال کردیا گیاہے اور میں نے قومی اورصوبائی اسمبلیوں کے اجلاس آئندہ طلب کرنے کا فیصلہ کیاہے اور میں مطالبہ کرتا ہوں کہ بھارتی فوج فوری طور پر مشرقی پاکستان سے نکل جائے اور تمام گرفتار شدہ پاکستانی فوجیوں ،سرکاری ملازمین اور عام شہریوں کو رہا کیا جائے ،اس سلسلے میں اقوام متحدہ ،عالمی طاقتوں سے بھی میری اپیل نشر کی جائے تاکہ بھارت کو سخت مزاحمت کا سامنا ہو ،میں مغربی پاکستان سے کہیں بھاگ تو نہیں سکتا ،مجھے آپ فوج اور پولیس کے پہرہ میں رکھیں ۔
میرے اس اقدام سے بھارت کو بین الاقوامی سطح پر سخت خفت اور ندامت کا سامنا بھی کرنا پڑے گا اور بعدازاں ہم اپنی اصل قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس بلاکر ملک میں آئینی حکومتیں تشکیل دے سکیں گے اور میں وفاقی اور صوبائی سطح پر آئینی حکومتوں کے باضابطہ قیام اور اسلام آبادمیں ہی پانچوں صوبوں کی قومی اسمبلی کا اجلاس بلاکر نئے پاکستانی آئین کی تشکیل اور منظوری کے مراحل مکمل کرانے کے بعد ڈھاکہ جائوں ،ملک غلام جیلانی کے بقول مغربی پاکستان پر اقتدار حاصل کرنے والوںنے اس تجویز کو بھی ناقابل عمل قرار دے کر مجھے کہا کہ آپ شیخ مجیب الرحمن سے پوچھ کرصرف یہ بتائیں کہ وہ کہاں جانا چاہتے ہیں، ان کا پاکستان میں مزید قیام ہمارے لئے اور ان کے لئے مشکلات اور خطرات کا باعث ہوسکتا ہے جس پر شیخ مجیب الرحمن نے بتایا کہ چوں کہ ان کی اہلیہ اور بچے لندن میں موجود ہیں ۔ اس لئے سفارتی ذرائع سے رابطہ کرکے مجھے لندن بھجوادیا جائے ،اس طرح 2جنوری 1972ء کی شام شیخ مجیب الرحمن لندن پہنچ گئے اور لندن پہنچنے کے بعد دنیا بھر کے ٹی وی اور ریڈیوز پر یہ خبر نشرہوئی اور وہاں کے شام کے اخباروں نے اسے بریکنگ نیوز کے طور پر نمایاں کیا، جبکہ ریڈیو پاکستان نے بھی رات کو شیخ مجیب الرحمن کے لندن پہنچ جانے کی بڑی مختصر سی خبر نشر کی ،پروفیسر مرزامحمد منورر صاحب یہ کہتے ہوئے خاموش ہوگئے پھر گویا ہوئے۔۔
بیٹا اب اندازہ لگالیں پاکستان توڑنے والے کون تھے ۔مرزا منور صاحب سے یہ سربستہ راز معلوم ہونے کے بعد میں ہر سال 16دسمبر کو اس ساری کہانی کو یاد کرتا تھا اور سوچتا تھا کہ اس امانت کو قوم تک پہنچادوں، اس بار میں نے سوچا تو یہ ہی تھا کہ اسے 16دسمبر کے دن ہی اخبارات میں شائع کرائوںلیکن بعض ناگزیر حالات کے پیش نظریوم سانحہ مشرقی پاکستان کے موقع پر ضبط تحریر میں نہ لاسکا، اب خود کو لاحق مستقل بیماری میں کچھ کمی ہوتے ہی یہ فرض ادا کررہا ہوں ،اللہ تبارک وتعالیٰ پروفیسر مرزا محمد منورر صاحب کو جنت الفردوس میں بلند مقام عطاء فرمائے ، آمین ،وہ حیات تھے تو موٹروے نہ ہونے کے باوجود میں تقریباً ہر جمعہ ممتاز عارف کے ہمراہ ان کے قدموں میں ہوتا ،اورہم گھنٹوں انکی محبت اور پیار سے محظوظ ہوتے ،یہ ہم پر اللہ کا بڑاکرم تھا۔
……………………(ختم شد)
سقوط ڈھاکہ کا ذمہ دار کون؟
Jan 21, 2024