فلسطین کیخلاف اسرائیلی جارحیت،امریکہ میں مسلمانوںکی سرگرمیوں میں غیر معمولی اضافہ

اسلام آباد(خبرنگار)امریکہ میں غزہ کے خلاف اسرائیلی جارحیت کے نتیجے  بالخصوص  مسئلہِ فلسطین کے لیے مسلم آبادی کی  سرگرمیوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اس تنازعہ نے مسلمانوں میں عجلت اور اتحاد کے ایک مضبوط احساس کو  جگا دیا ہے، اور اس کے نتیجے میں اب ان کی آوازیں زیادہ سنائی دے رہی ہیں، جس سے کمیونٹی مضبوط ہوئی ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ عام امریکی عوام کی اس کاز کی حمایت میں اظہار یکجہتی سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے یہ بات پاکستانی نژاد امریکی سیاسی تجزیہ کار اور جارج ٹان یونیورسٹی واشنگٹن ڈی سی میں امریکن مسلم اسٹڈیز پروگرام کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر زاہد بخاری کے 'غزہ، ابھرتا ہوا  ورلڈ آرڈر اور امریکن پولیٹکس' کے عنوان سے منعقدہ ایک مباحثے کے دوران سامنے آئی جس کی میزبانی انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس)نے کی، جبکہ نشست میں چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمن ، وائس چیئرمین آئی پی ایس سابق سفیر سید ابرار حسین ، اور آئی پی ایس کے مشیر برائے ریسرچ اینڈ اکیڈمک آٹ ریچ ڈاکٹر فخر الاسلام بھی شامل تھے۔ ڈاکٹر بخاری نے مشاہدہ کیا کہ مذکورہ مسلم سرگرمیوں میں اضافہ 9/11کے واقعات کے بعد کے سالوں میں امریکی مسلم کمیونٹی کی اپنے نقطہ نظر کو سامنے لانے کی کوششوں کا تسلسل ہے۔ تاہم حیران کن بات یہ ہے کہ موجودہ تحریک صرف مسلم آبادی تک  محدود نہیں ہے، بلکہ اس نے امریکی عوام کی طرف سے بھی  وسیع حمایت حاصل کی ہے، جو تیزی سے غزہ کے کاز کے ساتھ اپنی صف بندی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ پرانی نسل، خاص طور پر وہ لوگ جو ریپبلکن پارٹی سے وابستہ ہیں، اسرائیل کی حمایت کی طرف مائل ہو سکتے ہیں، لیکن نوجوان نسل کی رائے میں نمایاں تبدیلی آئی ہے، جن میں کچھ ڈیموکریٹس بھی شامل ہیں، جن کے مسئلہ فلسطین کے بارے میں تاثرات بدل گئے ہیں۔ ڈاکٹر بخاری نے کہا کہ طاقت کی یہ بدلتی ہوئی حرکیات، امریکی عام آبادی اور حکومت کے درمیان جاری تصادم کے ساتھ مل کر، امریکی سماجی سیاسی حالات کو متاثر کرنے کی نمایاں صلاحیت رکھتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ امریکی حکومت کے لیے بدلتے ہوئے ماحول کو آگے بڑھانے کے لیے ایک مشکل چیلنج ہے۔ ڈاکٹر بخاری کے مشاہدات کی تائید کرتے ہوئے خالد رحمن نے زور دیا کہ امریکہ کے کم ہوتے اثر و رسوخ کے باوجود عالمی رائے عامہ کی تشکیل میں اس کا نمایاں کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب  طاقت کی حرکیات میں تبدیلی آتی ہے، اس کی منتقلی آہستہ  ہوتی ہے، جو کہ عالمی نظام کو متاثر کرنے والی قوتوں کے پیچیدہ تعامل کو سمجھنے کے لیے ایک اہم عنصر ہے۔

ای پیپر دی نیشن