نیل کے ساحل سے… (3)

سفید گھوڑا!
زیر نظر سلسلے کا پہلا کالم چھپا تو پاکستان سے ایک نہایت دلچسپ ای میل موصول ہوئی ہمارے ایک قاری فرماتے ہیں کہ آپ نے اپنے کالم میں شرم الشیخ کے جو ’’ایمان افروز‘‘ خواص بیان کئے ہیں اس پر مصری محکمہ سیاحت کو چاہئے کہ آپ کو کوئی چھوٹا موٹا قومی اعزاز دیئے بغیر واپس نہ بھیجے تاہم اس کا ایک نقصان میری کمپنی کو ضرور ہوا ہے کہ میرے بزنس پارٹنر جو ادھیڑ عمری کے انتہائی خطرناک موڑ پر پہنچ چکے ہیں کل سے اسلام آباد گئے ہوئے ہیں کہ مصری سفارتخانے سے ویزا لگوایا جاسکے۔ کہنے کو تو وہ اسے بزنس ٹرپ کہہ رہے ہیں مگر قیام شرم الشیخ ہی کے ایک ہوٹل میں کریں گے۔ انکا فرمان ہے کہ ’’سمندر دیکھے بڑی دیر ہوگئی ہے چنانچہ ایک ہفتہ شرم الشیخ گزارنا ازحد ضروری ہے‘‘ میں نے لاکھ سمجھایا کہ جناب! سمندر تو یہاں بھی ہے آپ کو اگر یہ شوق اتنا ہی چرایا ہے تو جایئے کراچی‘ گڈانی حتیٰ کہ گوادر سے ہی ہو آئیے مگر کہتے ہیں کہ ’’بحیرہ احمر کی بات ہی اور ہے‘‘ موصوف کا یہ ٹرپ کمپنی کو تقریباً پانچ لاکھ میں پڑے گا جس کا ذمہ دار میں صرف آپ کو ٹھہراتا ہوں!!
ہم اپنے اس ’’مظلوم‘‘ قاری کے غم میں برابر کے شریک ہیں تاہم ان کی ای میل پڑھ کر سفید گھوڑے والا گھسا پٹا لطیفہ بڑی زور سے یاد آیا جو ہم نے جوابی میل میں انہیں لکھ بھیجا ہے
بحیرہ مردار کی مٹی
دیکھنے میں آیا ہے کہ پردیسی عام طور پر احمق ہوتے ہیں اور اگر اس بات کا ثبوت درکار ہو تو انہیں کبھی پردیس میں شاپنگ کرتے دیکھ لیں یہ بیچارے جن اشیا پر اپنا قیمتی وقت اور زرمبادلہ صرف کرتے پائے جاتے ہیں ان میں نوے فیصد ’’میڈ ان چائنا‘‘ ہوتی ہیں اور اس سے کئی گنا کم قیمت پر اپنے وطن میں دستیاب ہوتی ہیں اور باقی دس فیصد وہ ہوتی ہیں جن کی نہ تو آپ کو ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی سوجھ بوجھ۔ یہاں جو شاپنگ ہمیں ’’لاحق‘‘ ہوئی اس میں زیادہ تر اشیا کا تعلق دوسری یعنی بے تکی کیٹیگری سے تھا۔ ان میں ایک قدرے مہنگی اور نسبتاً زیادہ مافوق الفطرت مصری سوغات ایک ایسا صابن تھا جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ بحیرہ مردار کی تہہ میں پڑی مٹی کو جدید طریقے سے پراسس کرکے تیار کیا گیا ہے۔ ہمیں نہ تو جلد کی کوئی چھوٹی بڑی بیماری ہے اور نہ ہی کبھی خارش کی شکایت ہوئی مگر اس کمبخت مصری دکاندار نے یہ واہیات صابن بیچتے ہوئے اس کے جملہ خواص کچھ اس انداز میں بیان کئے جس طرح کلرکہار کی سڑکوں پر بیٹھے شہد فروش چھوٹی مکھی کے اوصاف حمیدہ بیان کرتے ہیں۔
اب ہم یہ احمقانہ سی چیز خرید تو لائے ہیں مگر ہمارا ذوق آگہی اور شوق حماقت ہمیں ٹکنے نہیں دے رہا۔ ہمارے دل میں ایک بیہودہ سی خواہش دن رات پلیٹے مار رہی ہے کہ ہم فوری طور پر کسی چھوٹی موٹی جلدی بیماری میں مبتلا ہوں یا ہمیں خارش وارش کی شکایت ہو اور ہم وہ صابن استعمال کرکے صرف یہ ثابت کر سکیں کہ وہ چالباز دکاندار بکواس کر رہا تھا اور پھر سیدھی سی بات ہے کہ بھلا مٹی اور وہ بھی بحیرہ مردار کی زیادہ سے زیادہ کتنی اکسیر ہو سکتی ہے۔ خیر‘ ہمیں یقین ہے کہ وہ بیہودہ شخص عنقریب غلط اور جھوٹا ثابت ہوگا کیونکہ ہمارے ایک دفتری ملازم کو اکثر ’’کھرک‘‘ لاحق رہتی ہے۔ وہ اس عارضے سے جان چھڑانے کیلئے اکثر گندھک کا تیزاب‘ سمندری جھاگ اور اس سے ملتی جلتی دیگر مقویات استعمال کرتا رہتا ہے اور کبھی کبھار دو چار ہفتوں کیلئے ٹھیک بھی ہو جاتا ہے۔ پاکستان پہنچتے ہی ہم اس کا علاج مذکورہ صابن کے ساتھ کرنے کی کوشش کریں گے اور جس سے وہ انشاء اللہ ٹھیک نہیں ہوگا لیکن سوال یہ ہے کہ ہم اس بدبخت دکاندار کا یہاں بیٹھ کر بھلا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟
گیلانی صاحب کے تیور
ہم یہ بات پچھلے تین چار ماہ سے کہتے چلے آ رہے ہیں کہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اپنی کابینہ کے بعض ارکان اور صدر آصف علی زرداری کے چند چہیتوں کے ہاتھوں سخت تنگ ہیں مگر ایک اچھے کھلاڑی کی طرح فی الحال اپنے مخالفین کو خوب غلطیاں کرنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں مگر اب یہاں شرم الشیخ میں ہمیں ان کے تیور کچھ زیادہ اچھے دکھائی نہیں دیئے‘ لگتا ہے کہ موصوف کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو چکا ہے۔ دوران سفر موصوف کے ساتھ تنہائی میں گپ شپ کا جو مختصر سا موقع ملا اس سے یہ اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں کہ گیلانی اب زرداری صاحب کو عنقریب ’’حیران‘‘ کرنے والے ہیں۔
فرانس میں زرداری کے سفارشی افسر جہانزیب خان کی بطور سفیر تقرری روک کر وزیراعظم نے اس کھڑاک کا باقاعدہ آغاز تو کر دیا ہے یہ حضرت ڈی ایم جی سے تعلق رکھتے ہیں مگر صدر پاکستان کی فیاضی کے سبب فرانس جیسے اہم ملک میں سفیر لگ کر ایک ٹکٹ میں دو دو نظارے کرنا چاہ رہے تھے مگر گیلانی نے سمری مسترد کرکے سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا ہے۔ صدر زرداری اور ان کے دفتری عملے کی کیفیت اس وقت دیدنی ہوگی۔ حیرت ہے کہ سلمان فاروقی جیسا گرگِ باراں دیدہ بھی زرداری صاحب کی ذہانت کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔
گیلانی کی اگلی چھری کابینہ کے چند پھیکے خربوزوں پر گرنے والی ہے۔ یہ خربوزے صدر زرداری کے فیورٹ ہیں مگر ان کی وجہ شہرت ان کی نالائقی ہے۔ ویسے اس حوالے سے تو ہماری اپنی گزارش بھی یہی ہے کہ کرپشن‘ نااہلی یا دونوں‘ بہرحال ناقابل برداشت ہیں۔ ان ’’خوبیوں‘‘ کا حامل وزیر آپ کو جہاں بھی نظر آئے اسے فارغ کر دیں خواہ اس کیلئے کابینہ کا ستر اسی فیصد ہی کیوں نہ گھر بھیجنا پڑ جائے۔ محض محکمے اور قلمدان تبدیل کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔
زرداری صاحب کی خدمت اقدس میں بھی ہم یہ گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ تاحال آپ نے جو سیاسی اننگ کھیلی ہے وہ بیحد ناقص ہے‘ اس لئے کسی نئی محاذ آرائی پر نکلنے سے پہلے اس بدنصیب پارٹی کا خیال ضرور دل میں لائیے گا جس کا اب تک ستیاناس ہو چکا ہے اور ہاں ایک گزارش اور ہے کہ اپنے چہیتوں سے کہیں کہ موبائل فون پر گفتگو کرتے ہوئے اس بات کا خیال ضرور رکھا کریں کہ اس کا ایک ایک لفظ ریکارڈ ہوتا ہے اور اس ریکارڈنگ کی سی ڈی چوبیس گھنٹے کے اندر اندر بہت دور تک جاپہنچتی ہے۔ امید ہے آپ کیلئے یہ اشارہ ہی کافی ہے!!

ای پیپر دی نیشن