بھارت کیلئے مخدوموں کی خدمت اور خادم

Jul 21, 2010

ڈاکٹر محمد اجمل نیازی
میں حیران تھا کہ ہمارے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے اتنی جرا¿ت کیسے کر لی کہ بھارتی وزیر خارجہ کے بارے میں ایسے کلمات کہہ دیئے بھارت سے کسی یشونت سنہا نے کہا کہ مخدوم قریشی وزیر خارجہ بننے کا اہل ہی نہیں، یہ تو اس نے ٹھیک کہا ہے۔ سردار آصف احمد علی کے ہوتے ہوئے اسے وزیر خارجہ بنانا جیسے مخدوم گیلانی کو مخدوم امین فہیم کے ہوتے ہوئے وزیراعظم بنایا۔ سنا ہے مخدوم قریشی کو وزیراعظم بنایا جا رہا تھا۔ بندہ پنجابی ہو اور مخدوم بھی ہو، مخدوم امین فہیم کا مقابلہ اسی طرح ہو سکتا تھا۔ مخدوم امین فہیم کو وزیراعظم بنانے کا اعلان زرداری صاحب نے کیا تھا تو پھر وہ کتنا سطحی کتنا بے اندیش ہے کہ اسے سیاست سے ریٹائر ہو جانا چاہیے تھا اس طرح وزیر بننا حقیر بننا ہے۔ صدر زرداری جیسا سیاستدان اب پیپلز پارٹی میں نہیں بلکہ اب تو پاکستان میں بھی نہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے مقابلے کا آدمی چودھری نثار ہو گیا ہے۔ نوازشریف صدر زرداری کا پیپلز پارٹی والوں سے کم حامی نہیں۔ صدر زرداری سیاست میں نوازشریف سے بہت آگے ہے۔ شہبازشریف سے آگے نہیں تو پیچھے بھی نہیں۔ میڈیا صدر زرداری کے خلاف تھا اب نوازشریف کے خلاف ہے۔ کوئی بھی این آر او کا نام نہیں لیتا پہلے کہتے تھے صدر زرداری کو خطرہ ہے۔ اب کہتے ہیں دونوں کو خطرہ ہے۔ اب آرمی چیف جنرل کیانی کے لئے ایکسٹنشن کی خبریں چلا دی گئی ہیں۔ وہ اس سلسلے میں خاموش ہیں اور خاموشی نیم رضا ہوتی ہے۔ آرمی چیف کو بھی چپ کرا دیا گیا ہے وہ ویسے ہی چپ چاپ آدمی ہیں، گہرے آدمی بھی ہیں گہرائیوں اور خاموشیوں کی فطرت ایک ہے جنرل ضیاءکی خواہش ہوتی تھی کہ اس کے دل کی بات فرشتوں کو بھی کچھ دیر تک معلوم نہ ہو۔ اسے بھٹو نے آرمی چیف بنایا تھا۔ جنرل مشرف کو نوازشریف نے آرمی چیف بنایا تھا۔ اب صدر زرداری کی باری ہے اور نجانے آرمی چیف کے لئے کس کی باری ہے۔
مخدوم گیلانی کو یہ تاثر دیا گیا ہے کہ اس کا مستقبل پیپلز پارٹی کے ساتھ ہے اور پیپلز پارٹی صدر زرداری کے پاس ہے۔ سیاست یہ ہے کہ نوازشریف اور شہباز شریف حتیٰ کہ حمزہ بھی مخدوم گیلانی کی تعریف کرتا ہے اور وہ صرف صدر زرداری کا تابعدار ہے۔ نوازشریف کو اس طرح ڈرا کر رکھا ہوا ہے کہ میری حکومت گئی تو تمہاری باری نہیں آئے گی پھر شہبازشریف کی باری کیسے آئے گی۔ سلمان تاثیر کو صدر زرداری کی آشیر باد حاصل ہے وہ ساتھیوں کو خراب ہونے دیتے ہیں مگر ہر بار نہیں ہوتے دیتے۔ مخدوم قریشی بھارت کے لئے وہی جذبات رکھتا ہے جو صدر زرداری کے خیالات ہیں۔ پھر اس نے مذاکرات میں پورے تعاون کے بعد اچانک پنیترا بدل لیا۔ وہ لاڈ سے مصنوعی انداز میں بولتا ہے اس طرح تو کسی کو گالی دی جائے تو بھی بُرا نہیں لگتا۔ مگر سوچ سوچ کر سچ نہیں بولا جاتا۔ اس کے لئے بے ساختہ پن اور بھولپن کا بانکپن ضروری ہوتا ہے اور وہ مخدوم قریشی میں نہیں۔ اس نے کرشنا کے بھارت چلے جانے کے بعد کشمیر کا نام لیا پہلے کیوں نہ لیا۔ پانی کا مسئلہ کیوں نہ اٹھایا اسے یہ بھی معلوم نہیں کہ ہمارے جماعت علی شاہ کا رابطہ بھارت سے ہے اور وہ جنرل مشرف کا آدمی ہے سارے صوبوں کے گورنر بھی اس کے ہیں۔ جماعت علی شاہ پانی پر کیا بات کرے گا وہ تو پیٹ بھر کر پانی پینے کے بعد بھی پیاسا لگتا ہے مگر پیاس کی اہمیت اور کیفیت کو نہیں جانتا۔ پانی کا مسئلہ بھارت نے پاکستان کے اندر بھجوا دیا ہے۔ مذاکرات ناکام ہوئے سندھ پنجاب میں پانی کا تنازعہ بھی ختم ہو گیا اور پاک افغان راہداری کا معاہدہ بھارت کے لئے ہو گیا۔
بھارت سے مذاکرات کی ناکامی کے بعد خفیہ کامیابی کا تحفہ بھارت کو بھجوایا گیا معاہدہ تو افغانستان سے راہداری اور تجارت کا ہوا اور خوشیاں بھارت میں منائی گئیں۔ پہلے یہ راہداری مسئلہ کشمیر کے ساتھ منسلک تھی۔ چودھری ظہیر الدین نے اسے کشمیر کاز سے غداری قرار دیا ہے۔ رحمت وردگ نے کہا ہے کہ حکمران آزاد ہوتے تو امریکہ یہ معاہدہ نہ کرا سکتا ہم آتش فشاں پر کھڑے ہیں۔ نوازشریف کالا باغ ڈیم کے لئے سنجیدہ نہیں۔ اب پاکستان بالخصوص پنجاب میں دہشت گردی کے لئے بھارت کو مزید آسانی ہو گی۔ امریکی مقاصد بھی پورے ہوں گے کہ پاکستان میں انتشار اور خانہ جنگی کا ماحول پیدا کیا جائے۔ ہلیری نے پاکستان آتے ہی بھارتی وزیر خارجہ کرشنا کو فون کیا یہ بھی توہین ہے۔ مخدوم قریشی کی عزت گئی ۔ کوئی یہ بتائے کہ اس موقع پر امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کیوں آئی۔ امریکی جرنیل اور اہلکار آتے ہی رہتے ہیں سینکڑوں ملکوں میں اتنے امریکی اہلکار اتنی بار نہ گئے ہوں گے۔ انہوں نے پاکستان کو اپنی چراگاہ اور شکار گاہ بنایا ہوا ہے جب مخدوم امین فہیم بھارت کے فائدے کے لئے پاک افغان معاہدے پر دستخط کر رہا تھا تو ہلیری اس کے سر پر کھڑی تھی مگر پاک امریکہ نیو کلیئر معاہدہ کے لئے بڑی رعونت کے ساتھ انکار اور کشمیر کے معاملے میں بھارت کی حمایت؟ پاک چین نیوکلیئر معاہدے پر بھی امریکہ کو اعتراض ہے۔ مخدوم گیلانی نے نوازشریف کو فون پر اعتماد میں لیا پیپلز پارٹی اور ن لیگ بلکہ سب سیاستدان عالمی یعنی امریکی ایجنڈے پر ایک ہیں۔ شہبازشریف نے کرشنا کی شاعری کی تعریف کی۔ نوازشریف نے واجپائی کی شاعری کی تعریف کی واہ واہ پھر ارشاد کیجئے، مکرر بلکہ مقرر
ہلیری کلنٹن نے اس بار بھی صحافیوں کے سامنے بھیگی بلی جیسا انداز اختیار کیا۔ شاہ محمود قریشی کے لئے چالاک لومڑی بنی رہی جب ایوان صدر میں گئی تو صدر زرداری اس کے پیچھے پیچھے تھے۔ فرزانہ راجہ کی خوشامد پر ایک جملہ ہلیری نے کہا ۔ وہ صدر زرداری نے نہیں سنا میں لکھ بھی دوں تو وہ شائع نہیں ہو سکے گا ۔ بختاور اور آصفہ ہلیری سے ملیں، افغان وزیر خارجہ سے بھی ملیں وہ سچ سچ بتائیں کہ زیادہ خوشی کہاں ہوئی؟ اوباما کے ساتھ جذبات کے باوجود ہماری خواہش تھی کہ ہلیری جیت جائے۔ صدر اوبامہ نے مایوس کیا مگر شکر ہے کہ ہلیری امریکی صدر نہیں بنی۔ افغانستان کے ساتھ اتنی محبت بھی امریکی دباو¿ کے تحت ہوئی، اور بھارت نے وہ فائدہ اٹھا لیا کوئی بتائے کہ پاک بھارت مذاکرات ناکام ہوئے یا کامیاب ہوئے۔ اس کے لئے خوشنود علی خان کی یہ بات ہی بہت کافی ہے”میں نے کہا تھا ہلیری آ رہی ہے بڑا غضب ڈھائے گی“ وہ تماشا دیکھنے آئی تھی اس رعایت کا جو ہم نے بھارت کو افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے بہانے سے دی ہے۔ اس کے بعد پاکستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری بڑھے گی۔ لگتا ہے ہم نے اپنے قومی مفادات کو بیچ دیا ہے ہم امریکی دباو¿ میں ملکی مفادات کا سودا کرنے میں کہاں تک جائیں گے۔
مزیدخبریں