ملک کی معاشی، سیاسی اور سماجی تباہی کا جو سلسلہ چل نکلا ہے، وہ کہیں تھمنے کا نام نہیں لے رہا حالانکہ یہ سب کچھ ایک دن میں ہی تو نہیں ہوا ہے، ٹکراﺅ اور تصادم کی سیاست تو پہلے بھی سیاسی لیڈرشپ اور سیاسی جماعتوں کے درمیان تھی لیکن اب جب سے سلسلہ زرداریہ اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوا ہے اور اس نے اپنے طے شدہ لوٹ مار کے ایجنڈا میں کسی قسم کی کمی نہیں آنے دی ہے تو اب یہ ٹکراﺅ اداروں کے درمیان ہو رہا ہے۔ انتظامیہ، عدلیہ اور پارلیمنٹ آمنے سامنے ہیں اور عدالتی فیصلوں کو انتہائی ڈھٹائی سے اقتدار کے بے رحم پاﺅں تلے روندا جاتا ہے جبکہ یہ دور جدید کی تاریخ میں بڑا شرمناک اور قابل مذمت سیاسی رویہ ہے جوکہ ایک قوم یا سلطنت کو ناکام قرار دینے کے لئے کافی ہے۔ یہ کیسا حکومتی طرزعمل ہے جہاں چور، ڈاکو اور ڈرگ کا خطرناک کام کرنے والے کارندے تو ملک کی اعلیٰ اقتدار کے ایوانوں میں اس طرح رفعتیں حاصل کریں جس طرح کہ وہ قوم کے لئے انتہائی اہم اثاثہ ہوں۔ اقتدار کے اعلیٰ عہدوں کی تقسیم کا فیصلہ ”وفاداری بشرط استواری“ کے اصول پر ہوتا ہے۔ آج حکومت میں شامل تمام اتحادی جماعتیں زرداری صاحب کی لوٹی ہوئی دولت کو بچانے کے لئے اور اس کو قانونی تحفظ پہنچانے کے لئے سیاسی میدان میں اترچکی ہیں، انہیں عوام کی کوئی فکر نہیں اگر فکر ہے تو صرف اپنی کرسی، اپنے اقتدار اور اپنے فائدے کی ہے۔آج قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ کیا انہوں نے اس قسم کی جمہوریت کے لئے ووٹ دیئے تھے؟ قوم غربت کی چکی میں پس رہی ہے، قوم کی بیٹیاں بازاروں میں بک رہی ہیں، قوم کی غربت کا جنازہ نکل رہاہے لیکن نام نہاد سیاسی حکمرانوں نے اپنی انا کی فتح و کامرانی کے لئے ہر وہ حربہ استعمال کرنا شروع کر دیا ہے جوکہ مہذب ممالک کی نظر میں بہت بڑا مذاق ہوگا۔ عدلیہ کے ساتھ کئے گئے اس مذاق میں وکلاءکے قافلے کے سالار بن کر عزت کمانے والے آزاد عدلیہ کے نعرے لگانے والے صاحبان ضمیر بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنے ضمیر کو اپنے سے علیحدہ کرکے صرف اپنے ذاتی مفادات کی نگہبانی کے لئے اور اپنے لیڈر کو خوش کرنے کے لئے پارلیمنٹ میں بیٹھے بھی رہے اور ووٹ بھی دے دیا۔ پاکستان شاید دنیا میں واحد ملک ہوگا جہاں قانون شخصیات کی خوشنودی کے لئے بنائے جاتے ہیں۔میری وکلائ، سول سوسائٹی، طالب علموں اور اساتذہ کرام سے گزارش ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور اپنی آزاد عدلیہ کے تحفظ کے لئے اور صرف حکومتی اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات کو بچانے والے اس نئے توہین عدالت ایکٹ کی راہ میں سنگ گراں کی طرح رکاوٹ بن جائیں۔ملک کی اپوزیشن کی طرف نہ دیکھیں، وہ کافی حد تک اس استحصالی نظام کا حصہ بن چکے ہیں۔ وہ بقول فارسی شاعر ”بمقدار اشک بلبل“ اپنے آنسو بہا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں تاکہ گونگلوﺅں سے مٹی بھی اتر جائے اور اقتدار کا تاج بھی سر پر تمام لشکاروں کے ساتھ چمکتا رہے۔ بس
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں