جوبائیڈن اور بھارت کی دلجوئی ....( ہوا کے دوش پر)

امریکی نائب صدر جوبائیڈن 22 جولائی کو بھارت کے دورے پر آ رہے ہیں اور آنے سے پہلے ہی انہوں نے بھارت کی دلجوئی کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور بھارت کے بارے میں بیان دیا ہے کہ بھارت ایشیا کی ایک ابھرتی ہوئی قوت ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سول ایٹمی تعاون کو مضبوط بنایا جائے گا البتہ سرمایہ کاری کے حوالے سے کچھ تحفظات ہیں۔ بھارت بہت چالاک ہے اسے معلوم ہے کہ ان امریکی بیانات کی اصل حقیقت کیا ہے لیکن خطے کی موجودہ صورتحال میں اس دورے کی بہت اہمیت ہے۔ چین آہستہ آہستہ طاقتور سے طاقتور ہوتا جا رہا ہے سب سے زیادہ وہ معاشی طور پر اپنے آپ کو مضبوط کر رہا ہے۔ عسکری طور پر بھارت پاکستان پر تو بے جا غراتا ہے لیکن جب چین کی سریع الحرکت پیپلز آرمی لداخ کے علاقوں میں 19 کلو میٹر پر قبضہ کر کے وہاں اپنا بورڈ لگا دیتی ہے ”اس وقت آپ چین کے علاقے میں ہیں“ تو بھارت کی جرا¿ت نہیں ہوتی کہ وہ چین کے اس لگے ہوئے بورڈ کو اکھاڑ سکے۔ یہی نہیں بلکہ جب اس واقعہ کے بعد چین کے وزیراعظم نے بھارت کا دورہ کیا تو اس وقت بھی جرا¿ت نہیں ہوئی کہ چین کے سربراہ سے احتجاج کر سکے۔ اس پسپائی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ جب لداخ کے علاقے پر چین نے قبضہ کیا تو بھارت نے امریکہ کی کنڈی کھٹکھٹائی لیکن اندر سے جواب ملا کہ صبر کرو اور برداشت کرو کیونکہ اس وقت چین کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ پاکستان نہیں ہے کہ حقائق جانتے ہوئے بھی اسے ممبئی حملوں میں ملوث کر دیا جائے۔ جوبائیڈن کے دورے میں پاک چین تعلقات کا وہ نیا باب بھی ضرور زیر بحث آئیگا جو پاکستانی وزیراعظم محمد نواز شریف نے اقتدار میں آنے کے بعد چین کا دورہ کر کے رقم کر دیا ہے۔ کاشغر سے گوادر تک ریل اور سڑک کا راستہ جس پر کام شروع بھی کیا جا چکا ہے کیونکہ چین کی ترقی کا سیکرٹ سب سے بڑا یہی ہے وہ باتیں نہیں عمل کرتا ہے یہی سبب ہے کہ بھارت چین سے انتہائی خوفزدہ ہے ۔ یہی سبب ہے کہ جب وزیراعظم محمد نواز شریف چین کے دورے پر تھے تو بھارت نے ایک گیم کھیلی اور اپنے وزیر دفاع کو سرحدی تنازعہ حل کرنے کے بہانے چین بھجوا دیا۔ ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ چین نے بھارتی وزیر دفاع کی موجودگی میں بیان دے دیا کہ بھارت ہمالیہ کے مقبوضہ علاقے کو چین کے حوالے کرنے کی تیاری کرے۔ اس طرح بھارتی میڈیا نے اپنے وزیر دفاع کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اب بھارت جانتا ہے کہ جوبائیڈن جو لالی پاپ لے کر آ ر ہے ہیں ان کا بنیادی مقصد صرف اتنا ہے کہ بھارت امریکی کمپنیوں کو اپنی مارکیٹ میں کاروبار کرنے کی اجازت دے لیکن اس مسئلہ پر بھارتی حکمران اپنے عوام کے ہاتھوں پریشان ہیں۔ عوام نے امریکی مصنوعات کی بھارتی منڈیوں تک رسائی کو عملی طور پر ناممکن بنا دیا ہے پھر کسی مثبت نتیجہ کی توقع اس لئے بھی نہیں ہے کہ بھارتی انتخابات آئندہ سال ہو رہے ہیں۔ (محمد مصدق)

ای پیپر دی نیشن