توانائی کا بحران اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دےاجارہا ہے۔ اب تک توےہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ سابقہ حکومتوں کی نااہلی اور کرپشن کے باعث توانائی کے بحران کو حل کرنے طرف توجہ نہےں دی جا سکی اس لےے ےہ بحران سنگےن ہوتا چلا گےا لےکن موجودہ حکومت تو اس مسئلے کو حل کرنے کے سلسلے مےں بڑی سنجےدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے پھر بھی اس بحران سے نکلنے مےں کوئی خاطر خواہ کامےابی حاصل ہوتی دکھائی نہےں دے رہی۔
اگرچہ حکومت اس بحران پر قابو پانے کےلئے جنگی بنےادوں پر کام کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ اب تک حکومت نے اس سلسلے مےں جتنے بھی موثر اقدامات اُٹھائے ہےں ان سے اس مسئلے کے حل کی جانب کسی مثبت پےش رفت کی بجائے مزےد پوشےدہ قسم کے مسائل کھل کر سامنے آتے جا رہے ہےں۔
دوسرے لفظوں مےں ےوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ مسائل اپنی شکلےں تبدےل کرکے حکومت کے راستے مےں حائل ہو رہے ہےں۔ ےعنی جب کسی اےک مسئلے کو حل کرنے کی تدبےر کی جاتی ہے تو وہ کوئی دوسری شکل اختےار کرکے سامنے آجاتا ہے۔
مثلاََ توانائی بحران کے بارے مےں پہلے ےہ قےاس کےا جارہاتھا کہ ےہ گردشی قرضوں کی پےداوار ہے اگر انھےں کم کرنے کی کوشش کی جائے تو اس بحران پر کسی حدتک قابو پاےا جاسکتا ہے دوسری صورت مےں اس کی شدت مےں توکمی ضرور واقع ہو جائیگی۔ اس سلسلے مےں حکومت کی جانب سے دوماہ کی قلےل مدت مےں گردشی قرضے ختم کرنے کا اعلان کےا گےا اور اسکے ساتھ ہی تےن سو ارب روپے کی ادائےگی بھی عمل مےں لائی گئی۔ اس ادائےگی کے بعد ےہ توقع کی جا رہی تھی کہ شارٹ فال 6 ہزار سے تےن ہزار تک آجائے گا۔ اسی توقع کو پےشِ نظر رکھتے ہوئے وزےرِ توانائی نے ےہ اعلان کردےا تھا کہ رمضان المبارک کے دوران روزہ داروں کی سہولت کےلئے سحروافطار کے اوقات مےں لوڈشےڈنگ نہےں کی جائیگی لےکن اُن کا ےہ منصوبہ بھی کامےابی سے ہمکنار نہےں ہوسکا۔
اس کا ردِ عمل عوامی احتجاج کی صورت مےں سامنے آےا ہے۔ ملتان مےں مےپکو کے دفتر پر حملہ کےاگےا، کراچی مےں احتجاج کرنیوالوں پر لاٹھی چارج کے ذرےعے قابو پانے کی کوشش کی گئی۔اسکے علاوہ لاہور شےخوپورہ اور فےصل آباد مےں بھی احتجاجی مظاہرے دےکھنے مےں آتے رہے۔ ےہاں تک کہ اب اس احتجاج کا دائرہ شہروں سے ہوتا ہوا صوبوں تک پھےلتا جار ہا ہے۔
صوبہ خےبر پی کے مےں لوڈشےڈنگ مےں اضافے کی صورت مےں وزےراعلیٰ پروےز خٹک نے بھی احتجاج کی کال دی تھی جو بعدمےں انھوں نے واپس لے لی تھی۔ خٹک صاحب اپنے صوبے کے انتظامی امور کو پنجاب کی طرح مثالی بنانا چاہتے ہےں ۔وفاقی حکومت کو چاہےے کہ وہ اُنھےں بھرپور تعاون کی ےقےن دہانی کرائے۔ خواجہ کا کہنا ہے کہ حکومتی پاورکمپنےوں مےں پائی جانیوالی کالی بھےڑوں اور اُنکی کرپشن کے باعث لوڈشےڈنگ کے دورانےے مےں کمی نہےں ہو پارہی۔ اسکے علاوہ شےڈول کے غےرمنصفانہ تقسےم کوبھی لوڈشےڈنگ کی بڑی وجہ قرار دےا جارہا ہے۔
سرکاری اعداو شمار کیمطابق بجلی کی نئی پےداوار اگر سسٹم مےں شامل کردی جاتی تواس سے عوام کو رےلےف ملتا جبکہ اسکے برعکس عوام کو زےادہ لوڈشےڈنگ بھگتنا پڑرہی ہے۔ اسکی وجہ ےہ بےان کی جارہی ہے کہ پاورکمپنےوں نے واجبات تو وصول کرلےے ہےں لےکن وہ بجلی کی پےداوار بڑھانے کےلئے تھرمل پاورسٹےشنز کو چالو نہےں کر رہےں۔ جب بجلی بنے گی نہےں تو سسٹم مےں کہاں سے شامل ہوگی۔ اب نئی بجلی کی پےداوار کے راستے مےں پاورکمپنےوں کے بدعنوان افسر رکاوٹ بنے ہوئے ہےں۔ پہلے عوام سابقہ حکومتوں کی نااہلی اورکرپشن کے باعث لوڈشےڈنگ کے عذاب کو بھگتتے رہے ہےں اور اب اُنھےں بد طینت افسروں کی ملی بھگت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گوےا آسمان سے گرنے اورگھجور مےں اٹکنے والا معاملہ چل رہا ہے۔
طاقت ورمےڈےا اورآزاد عدلےہ کی موجودگی مےں بھی کرپٹ افسرعوام کو لوڈشےڈنگ کے عذاب مےں مبتلا کرکے کروڑوں روپے سے اپنی جےبےں بھررہے ہےں تو اسکی وجہ ےہ ہے کہ ہمارے ہاں اوپر سے لے کر نےچے تک مل بانٹ کر کھانے کا بڑامربوط نظام موجودہے۔ اسی کرپٹ نظام کی بدولت افسر بے خوف ہوکر کرپشن کرتے ہےں اور کسی کو خاطرمےں نہےں لاتے۔
کرپشن کی ےہ داستان صرف نجی پاور کمپنےوں تک محدود نہےں ہے جےسا کہ سب جانتے ہےں کہ سرکاری محکموں سے بلوں کی وصولی کےلئے رشوت دےنا معمول کی بات ہے۔ پاورکمپنےوں کا ےہ موقف سامنے آرہا ہے کہ ماضی مےں بلوں کی ادائےگی کیلئے واپڈا کے اہلکار ان سے رشوت کامطالبہ کرتے تھے جب ان کی ڈےمانڈ پوری نہےں کی جاتی تھی تو وہ بل کی ادائےگی روک دےاکرتے تھے جب ان سرکاری اہلکاروں پر دباﺅ ڈالا جاتا تو وہ کہتے کہ حکومت کے پاس بل ادا کرنے کےلئے پےسے نہےں ہےں۔ اس طرح ان بدعنوان افسروں کی ملی بھگت سے ادائےگوں کا توازن اس قدر بگڑ گےا کہ اسکے سامنے حکومتےں بھی بے بس ہوتی چلی گئےں۔
پےپکو کے اےک سابق اےم ڈی منور بصےر نے چےف جسٹس کو اےک خط لکھا جس مےں عدالت کو نندی پور منصوبے کی اصل لاگت کے بارے میں آگاہ کےاگےا ہے اور اسکے ساتھ ہی اُنھوں نے عدالت عظمیٰ کو ےہ بھی بتاےا کہ ےہ منصوبہ انھوں نے خود بناےا تھا اُس وقت اسکی لاگت کا تخمےنہ 22 ارب روپے تھا جبکہ تےن سال کا عرصہ گزرنے کے بعد اسکی لاگت مےں اضافہ چالےس ارب روپے سے زےادہ ہوسکتا۔ منور صاحب کا کہنا ہے کہ اس ساری ڈےل مےں تقرےباََ 120 ملےن ڈالرز کاکمےشن ہڑپ کےے جانے کا اندیشہ ہے اور اس کے پسِ پردہ چند پرائےوےت پارٹےاں بھی اپنے حصے کی وصولی کےلئے سرگرمی دکھارہی ہےں۔ جےسے ہی منور صاحب کا ےہ خط منظرعام پر آےا اسحاق ڈار صاحب نے فوراََ اسکی تحقےقات کا حکم جاری کردےا ہے۔
لےکن لگتا ےہ ہے کہ ےہاں بھی افسر شاہی اپنا ہاتھ دکھانے کے چکر مےں ہے وہ اس طرح کہ اگر تےن سوارب روپے کی وصولی کے باوجود لوڈشےڈنگ جاری رکھ کر عوام کو رےلےف سے محروم کرکے ےہ افسرشاہی حکومت کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کر سکتی ہے توپھر نندی پور منصوبے مےں بھی وزےر خزانہ کو لاعلم رکھ کے کارستانی دکھا سکتی ہے ۔حکومت کو چاہےے کہ وہ بدعنوان افسروں کا محاسبہ کرنے کےلئے اےسے لوگوں کو ٹاسک فورس مےں شامل کرے جو ٹےکنےکل بھی ہوں اور ان کا کسی محکمے سے تعلق بھی نہ ہو، اسی طرح اُن کی غےر جانبداری کو ہرطرح کے شک وشبہ سے بالاتر بناےا جاسکتا ہے۔ اور دوسری بات ےہ کہ نااہل افسروں کے بنک اکاﺅنٹ کی چھان بےن لازمی کی جانی چاہےے۔
اگرچہ حکومت نے محکمانہ غفلت کو پےشِ نظر رکھتے ہوئے سےکرٹری پانی وبجلی انورخان کو اُنکے عہدے سے برخاست کردےا ہے اور انکی جگہ سےف چٹھ کو لگاےا گےا ہے۔ چےئرمےن واپڈا راغب عباد کو بھی رخصت کےے جانے کا امکان ہے۔
بدعنوان اورنااہل افسروں کے علاوہ بجلی اور گےس چور بھی حکومت کےلئے چےلنج بنے ہوئے ہےں۔گزشتہ دنوں وزےراعظم نے بجلی اور گےس چوروں کے خلاف کرےک ڈاﺅن شروع کردےا ہے جو قابلِ تعرےف عمل ہے۔ حکومت کی سےاسی کمٹمنٹ کے ساتھ بجلی اور گےس چوروں کے خلاف بلاامتےاز کارروائی توانائی کے بحران کو حل کرنے مےں بھی مددگار ثابت ہوگی اس کے ساتھ ہی حکومت کی اپنی سےاسی ساکھ بھی بحال ہوگی۔