٭امریکی صدر باراک اوبامہ نے مصر میں فوجی کارروائی کو ”سازش نہیں بلکہ انقلاب“ قرار دیا ہے جبکہ جنرل فتح نے فوجی مداخلت کو ” عوامی خواہشات کے احترام میں ملکی مستقبل کیلئے کامیاب سیاسی و نظریاتی جدوجہد“ کے نام سے موسوم کیا ہے۔ ( اس کا موازنہ پاکستان کی مسلح افواج کے اٹھائے جانیوالے عہد نامے سے بآسانی کیا جاسکتا ہے جس میں درج ہے کہ: ”آئین پاکستان کو ہر حال میں مقدم رکھوں گا جو عوام کی خواہشوںکا ترجمان ہے۔“ اس فرض کی ادائیگی کیلئے آرمی چیف کاغیر سیاسی ہونا ضروری ہے لیکن آرمی چیف اگر غیرسیاسی ہوگاتو وہ آئین کی پاسداری کس طرح کریگا؟ یہی سبب ہے کہ آئین کی پاسداری میںجنرل فتح سیاسی بن گیا اور سیاسی بساط الٹ کے رکھ دی۔
٭مصر میں رونما ہونیوالے حالات نے تمام عرب دنیا کے اسلام پسند عناصر کو مصر کی جانب راغب کیا ہے کیونکہ الاخوان کا تعلق اسلام کے مکتب فکر‘ سلسلہءقادریہ سے ہے جو سوڈان‘ لیبیا‘ صومالیہ‘ تیونس‘ الجیریا‘ عراق‘ اردن‘ شام‘ یمن‘ پاکستان‘ بنگلہ دیش اور انڈونیشیا تک پھیلا ہوا ہے۔
٭آرمی نے اس امید پریہ جوا کھیلا تھاکہ وہ جلد ملک کی صورتحال پر قابو پا لے گی لیکن تیس (30)سیاسی جماعتوں کی صدر مرسی کے ساتھ یکجہتی اور مکمل تائید نے حالات کو گمبھیر بنا دیا ہے اس طرح ”مصر ایک تاریخی جال میں پھنس چکاہے۔اسکی مثال نوآبادیاتی دور کی پہیلی کی طرح ہے جس نے مصر سے پاکستان تک کے ممالک کیلئے سیاسی اسلام کے خواب کی امیدوں کو روشن کردیا ہے۔“ پیٹر پروفام (Peter Profam, The Independent)
٭صدر مرسی کے حامیوں نے یہ واضح کردیا ہے کہ ”ہم مزاحمت جاری رکھیں گے۔ ہم آزاد انقلابی ہیں اور ہم اپنا سفر جاری رکھیں گے۔“
انکے مد مقابل اب فوج ہے جو ملک کی حکمران ہے۔یہ وہی فوج ہے جو حسنی مبارک کی رخصتی کے بعد اقتدار میں آئی تھی اوراٹھارہ ماہ تک اپنے ہی شہریوں کو قتل کرتی رہی۔اقتدار کی کشمکش اب شروع ہو چکی ہے۔
فوجی مداخلت نے خطرناک شکل اختیار کر لی ہے جس کے سبب مصر سے لے کر ترکی‘ پاکستان اور بنگلہ دیش تک اسلام پسند اور آزاد/سیکولر طبقات کے مابین سیاسی و نظریاتی تصادم کی راہ ہموار ہو چکی ہے۔ پاکستان میں عوام نے ایسے تصادم کو ووٹ کی طاقت سے ناکام بنایا اور اب وہی طاقتیں ’ یعنی عدلیہ ‘ آرمی اور روشن خیال‘ سیکولر اور اسلام پسند ‘ملک میں سیاسی توازن قائم کرنے کیلئے کوشاں ہیں جو ماضی میں حالات کی خرابی کا باعث بنتی رہی ہیں ۔
مغربی میڈیا اس بات کو سچ ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے کہ مصر میں ”سیاسی اسلام“ کا تجربہ ناکام ہو چکا ہے حالانکہ اس نظام کو اپنی افادیت منوانے کیلئے مناسب وقت ہی نہیں دیا گیا۔اور اگر مصر میں یہ تجربہ ناکام ہو گیا تو اس کا الزام مصر میں فوجی مداخلت کی ذمہ دار قوتوں یعنی امریکہ‘ یورپی یونین اور مشرق وسطی میں طاقت کا کھیل کھیلنے والی قوتوں کے سرہے ‘ جنہوں نے ”عوامی خواہشات کے آئینہ دارآئین کو مقدم رکھنے“ کے بجائے فوج کو مداخلت پر اکسایا ہے۔
الاخوان کی محاذ آرائی کی ایک طویل داستان ہے جو1954 ءمیں صدر ناصر کے دور میں شروع ہوئی اور 1970 ءتک رہی ۔اسکے بعد تین دہائیوں تک صدر حسنی مبارک کے مظالم کا شکار رہنے کے بعد2012 ءکے انتخابات میں اسے کامیابی نصیب ہوئی۔اب انہیں جنرل فتح کا سامنا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ”جہاں جمال ناصر جیسی طلسماتی شخصیت کامیاب نہیں ہو سکی وہاں جنرل فتح کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟
مصری عوام عرصہ دراز سے سیاسی اسلام کا خواب دیکھ رہے ہیں جسے ختم کرنا جنرل فتح کے بس کی بات نہیں“۔ وقت الاخوان کے ساتھ ہے اور افغانی طالبان کی طرح وہ بھی پرسکون ہیں اور اپنے مقصدسے مخلص ہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ غیر ملکی آقاﺅں کے مفادات کی نگران فوج کیخلاف انکی پرامن مزاحمت ضرور کامیاب ہوگی اور وہ دن رات اس ورد میں مصروف ہیں ۔ ”حسبی اللہ و نعم الوکیل“ .... (ختم شد)