چودھری سرور انگلستانی کو گورنر پنجاب بنانے کی افواہیں اڑی پھرتی ہیں۔ ان افواہوں کو پھیلانے میں خود چودھری محمد سرور کا حصہ بھی ہے۔ جو لوگ پاکستان سے تعلق رکھتے تھے جب انگلستان میں ممبر پارلیمنٹ بنتے ہیں تو آدھی سے زیادہ سیاست پاکستان میں کرتے ہیں۔ میں نے نذیر صاحب کا نام کبھی نہ سنا تھا میں لارڈ نذیر کو جانتا ہوں۔ اسے عمران چودھری نے بہت پذیرائی اور پبلسٹی دلوائی۔ لارڈ نذیر کے لئے کتاب کا فلیپ میں نے بھی لکھا تھا۔ شروع شروع میں یہ آدمی اچھے لگتے ہیں اور پھر....؟ وہ پاکستانی سیاستدان بن کے رہ جاتے ہیں۔ ہم زندگی میں بہت امپورٹڈ چیزیں استعمال کرتے ہیں تو امپورٹڈ گورنر پنجاب کیوں نہیں؟ امپورٹڈ وزیراعظم بھی تو ہم نے قبول کر لئے تھے چودھری سرور سے ایک شناسائی سی ہوئی تھی۔ اس میں برادرم ملک غلام ربانی کا بہت حصہ ہے۔ اب ان کے ساتھ بھی کوئی خاص تعلق چودھری سرور کا نہیں رہا۔ ربانی صاحب بتا رہے تھے کہ سرور اس بار پاکستان آیا تو وہ گورنر پنجاب کی طرح بنا ہوا تھا۔ گورنر بیچارہ بے اختیار ہوتا ہے مگر پھر بھی اس کا اختیار دوستوں پر چلتا ہے۔
اس کا بہت دوست پاکستان میں اسداللہ غالب ہے۔ اسے کہیں سے پتہ چلا کہ چودھری سرور کو انگلستان میں پاکستانی سفیر بنایا جا رہا ہے۔ اس نے دوستانہ انداز میں اس چکر کی مخالفت کی۔ چودھری سرور دوسرا حسین حقانی بڑی آسانی سے بن سکتا ہے۔ جب افغانستان میں حقانی گروپ کی دہشت امریکہ کو بہت چڑھی ہوئی تھی وہ اپنی پیدا کردہ دہشت گردی کو اپنی دہشت زدگی کے ساتھ جوڑتا اور توڑتا رہتا ہے۔ دہشت زدگی دہشت گردی سے بہت خطرناک ہے۔ میں نے لکھا تھا کہ امریکہ کا بھی ایک حقانی گروپ ہے اور حسین حقانی اس کے سربراہ ہیں۔ صدر زرداری کی سفارش پر اگر انگلستان میں واجد شمس الحسن ابھی تک پاکستان کے سفیر ہو سکتے ہیں وہ صدر زرداری کے سفیر ہیں۔ ان کے سرمایہ اور سرمایہ کاری کے پاسبان ہیں۔ ”کسی نہ کسی“ ایسے آدمی کی ہدایت پر چودھری سرور بھی سفیر ہو سکتے ہیں۔ اس بار انگلستان میں نواز شریف کے دوست کالم نگار عطاءالحق قاسمی کی سالگرہ تقریبات کی صدارتیں واجد شمس الحسن نے کیں۔ ان کا ذکر عطا کے کالموں میں مسلم لیگ ن کے خیر خواہوں کے طور پر ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں پاکستانی سفارت خانے میں عطا کا داخلہ ممنوع نہ تھا مشکوک ضرور تھا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ عطا نے ایک زبردست کالم چودھری سرور کے گورنر بننے کے خلاف لکھا ہے۔ ایک شخص جس کے پاس انگلستان کی شہریت ہو۔ وہ برطانوی پارلیمنٹ کا ممبر بھی رہا ہو اسے پاکستانی سفیر یا گورنر پنجاب لگایا جائے۔ جس ملک نے چودھری سرور کو دولت دی پھر دولت کو پاکستانی اقتدار میں استعمال کرنے کی اجازت دی۔ چودھری صاحب نے وہاں بھی پاکستانی سیاستدانوں کی طرح الیکشن لڑ کے اور پھر جیت کے دکھا دیا۔ کئی بار ممبر رہنے کے بعد بیزار ہو کے اپنے بیٹے انس سرور کو ممبر بنوا دیا۔ موروثی سیاست انگلستان میں بھی ہے اور اس کا کریڈٹ سابق پاکستانی محمد سرور کو جاتا ہے۔ اس کی یہ بات پیپلز پارٹی والوں کو پسند آئی تھی اور اب نواز شریف کو بھی پسند آئی ہے۔ اب وہاں بھی پاکستانی طرز سیاست اور طرز انتخاب کی ہوا پہنچ گئی ہے۔ یہ ہوا افواہ کی طرح کی چیز ہے۔ چودھری سرور کے ایک بیٹے عاطف سرور کے خلاف لاکھوں پونڈز کی منی لانڈرنگ کا مقدمہ چلا۔ اس کی سرپرستی چودھری سرور اور انس سرور کرتے ہیں۔ اس کیس میں بھی وہ پاکستانی ”طریقے“ اختیار کرکے بچ نکلے۔ ان باتوں کے لئے ملک ربانی صاحب اور اسداللہ غالب بہت جانتے ہیں مگر بتاتے نہیں۔ چودھری سرور کی ذہنیت گاﺅں کے وڈیرے والی ہے۔ جبکہ وہ وڈیرے نہیں ہیں۔ وہ انگلستان جا کے بھی اس ”جاگیردارانہ“ بالادستی کو نہیں بھولے۔ وہ دولت اور طاقت کا رعب پاکستان میں آ کے دکھا سکتے ہیں۔ انہوں نے کچھ فلاحی کام بھی کئے اور صرف اپنے آبائی علاقے میں کئے ہیں۔ امیری اور حکمرانی تو اپنے لوگوں کو دکھائی جاتی ہے۔ افواہیں خبروں سے زیادہ اہم ہوتی ہیں۔ عطا صاحب نے بہت معرکتہ الآرا کالم لکھا ہے۔ اسداللہ غالب کا کالم بھی زبردست ہے۔ اس میں پاکستان دوستی کو سرور دوستی پر ترجیح دی گئی ہے۔ یہ کالم انگلستان میں اور خاص طور پر گلاسکو میں محمد سرور کے ووٹرز کو ضرور پڑھنے چاہئیں۔ میں نے تو بہت پہلے لکھا تھا کہ برادرم عطاءالحق قاسمی کو گورنر بنایا جا رہا ہے۔ مجھے اب بھی یہ یقین ہے۔ وہ الحمرا آرٹس کونسل کے پڑوس میں گورنر ہاﺅس کے اندر ڈیرہ لگائیں گے۔ یہ ادبی ڈیرہ ہو گا جہاں غیر ادبی یعنی نیم سیاسی کارروائیوں کی بھی حوصلہ افزائی ہو گی۔ سلمان تاثیر نے گورنر ہاﺅس کو سیاسی ڈیرہ بلکہ زرداری ڈیرہ بنایا تھا۔ عطاءنے آرٹس کونسل کو بھی اپنی ذاتی معرکہ آرائیوں سے ایک عالمی گڑھ بنا لیا تھا مگر پاکستانی دوستوں کو خفا کر لیا۔ اس کی خبر شریف برادران کو بھی ہے۔ چودھری صاحب جب جس کی حکومت ہوتی ہے اس کے ساتھ ہوتے ہیں۔ عطاءصاحب نے ان کے زبردست جیالا ہونے کی خبر بھی دی ہے۔ اس کے باوجود وہ گلاسکو میں ان کے مہمان عزیز ہوتے ہیں۔ جب چودھری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو چودھری سرور ان کے بہت قدردان تھے۔ اب وہ نواز شریف کے بہت قریب ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ بڑے ”کامیاب“ آدمی ہیں۔
اسداللہ غالب نے کہا کہ نیٹو کی فوجیں پاکستان کی سرحد پر بیٹھی ہیں۔ ان کا سربراہ برطانیہ ہے۔ اگر وہاں کچھ گڑبڑ ہوتی ہے تو چودھری سرور انگلستان کی حمایت کریں گے۔ پارلیمانی نظام میں گورنر ایک رسمی عہدہ ہے۔ گورنر ہاﺅس میں سوائے گپ شپ کے کچھ نہیں ہو سکتا۔ چودھری سرور اگر یہ بظاہر بیکار منصب قبول کر رہے ہیں تو دال میں کچھ کالا ہے۔ سانولا تو ضرور ہے۔ ”سانول موڑ مہاراں“ برطانیہ نے چودھری سرور کی ڈیوٹی لگائی ہو گی۔ وہ پاکستان میں انگلستان کی نمائندگی کریں گے۔ ان سے گزارش ہے کہ مفادات اپنی جگہ مگر وہ برطانوی پارلیمنٹ کی توہین نہ کریں۔ مجھے تو دو گورنر اچھے لگے ہیں وہ گورنر مغربی پاکستان تھے مگر رہے تو اسی گورنر ہاﺅس میں تھے۔ شاید کسی کو غلام مصطفیٰ کھر کا زمانہ یاد ہو۔ جب گورنر ہاﺅس میں ”کھرمستیاں“ بہت مشہور ہوئی تھیں۔ بھٹو صاحب نے ایرانی شاہ سے گورنر پنجاب کا تعارف کرایا تو کہا یہ ”خر پنجاب است“ یہ بات اخبارات میں شائع ہوئی تھی۔ مجھے شاعر ادیب عامر بن علی کی بات پسند آئی کہ مجھے سب کچھ جاپان نے دیا ہے۔ میں جاپان اور پاکستان کی سانجھی عزت کے لئے کوشش کروں گا۔
”امپورٹڈ گورنر پنجاب“ ہمیں مبارک ہو؟
چودھری سرور انگلستانی کو گورنر پنجاب بنانے کی افواہیں اڑی پھرتی ہیں۔ ان افواہوں کو پھیلانے میں خود چودھری محمد سرور کا حصہ بھی ہے۔ جو لوگ پاکستان سے تعلق رکھتے تھے جب انگلستان میں ممبر پارلیمنٹ بنتے ہیں تو آدھی سے زیادہ سیاست پاکستان میں کرتے ہیں۔ میں نے نذیر صاحب کا نام کبھی نہ سنا تھا میں لارڈ نذیر کو جانتا ہوں۔ اسے عمران چودھری نے بہت پذیرائی اور پبلسٹی دلوائی۔ لارڈ نذیر کے لئے کتاب کا فلیپ میں نے بھی لکھا تھا۔ شروع شروع میں یہ آدمی اچھے لگتے ہیں اور پھر....؟ وہ پاکستانی سیاستدان بن کے رہ جاتے ہیں۔ ہم زندگی میں بہت امپورٹڈ چیزیں استعمال کرتے ہیں تو امپورٹڈ گورنر پنجاب کیوں نہیں؟ امپورٹڈ وزیراعظم بھی تو ہم نے قبول کر لئے تھے چودھری سرور سے ایک شناسائی سی ہوئی تھی۔ اس میں برادرم ملک غلام ربانی کا بہت حصہ ہے۔ اب ان کے ساتھ بھی کوئی خاص تعلق چودھری سرور کا نہیں رہا۔ ربانی صاحب بتا رہے تھے کہ سرور اس بار پاکستان آیا تو وہ گورنر پنجاب کی طرح بنا ہوا تھا۔ گورنر بیچارہ بے اختیار ہوتا ہے مگر پھر بھی اس کا اختیار دوستوں پر چلتا ہے۔
اس کا بہت دوست پاکستان میں اسداللہ غالب ہے۔ اسے کہیں سے پتہ چلا کہ چودھری سرور کو انگلستان میں پاکستانی سفیر بنایا جا رہا ہے۔ اس نے دوستانہ انداز میں اس چکر کی مخالفت کی۔ چودھری سرور دوسرا حسین حقانی بڑی آسانی سے بن سکتا ہے۔ جب افغانستان میں حقانی گروپ کی دہشت امریکہ کو بہت چڑھی ہوئی تھی وہ اپنی پیدا کردہ دہشت گردی کو اپنی دہشت زدگی کے ساتھ جوڑتا اور توڑتا رہتا ہے۔ دہشت زدگی دہشت گردی سے بہت خطرناک ہے۔ میں نے لکھا تھا کہ امریکہ کا بھی ایک حقانی گروپ ہے اور حسین حقانی اس کے سربراہ ہیں۔ صدر زرداری کی سفارش پر اگر انگلستان میں واجد شمس الحسن ابھی تک پاکستان کے سفیر ہو سکتے ہیں وہ صدر زرداری کے سفیر ہیں۔ ان کے سرمایہ اور سرمایہ کاری کے پاسبان ہیں۔ ”کسی نہ کسی“ ایسے آدمی کی ہدایت پر چودھری سرور بھی سفیر ہو سکتے ہیں۔ اس بار انگلستان میں نواز شریف کے دوست کالم نگار عطاءالحق قاسمی کی سالگرہ تقریبات کی صدارتیں واجد شمس الحسن نے کیں۔ ان کا ذکر عطا کے کالموں میں مسلم لیگ ن کے خیر خواہوں کے طور پر ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں پاکستانی سفارت خانے میں عطا کا داخلہ ممنوع نہ تھا مشکوک ضرور تھا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ عطا نے ایک زبردست کالم چودھری سرور کے گورنر بننے کے خلاف لکھا ہے۔ ایک شخص جس کے پاس انگلستان کی شہریت ہو۔ وہ برطانوی پارلیمنٹ کا ممبر بھی رہا ہو اسے پاکستانی سفیر یا گورنر پنجاب لگایا جائے۔ جس ملک نے چودھری سرور کو دولت دی پھر دولت کو پاکستانی اقتدار میں استعمال کرنے کی اجازت دی۔ چودھری صاحب نے وہاں بھی پاکستانی سیاستدانوں کی طرح الیکشن لڑ کے اور پھر جیت کے دکھا دیا۔ کئی بار ممبر رہنے کے بعد بیزار ہو کے اپنے بیٹے انس سرور کو ممبر بنوا دیا۔ موروثی سیاست انگلستان میں بھی ہے اور اس کا کریڈٹ سابق پاکستانی محمد سرور کو جاتا ہے۔ اس کی یہ بات پیپلز پارٹی والوں کو پسند آئی تھی اور اب نواز شریف کو بھی پسند آئی ہے۔ اب وہاں بھی پاکستانی طرز سیاست اور طرز انتخاب کی ہوا پہنچ گئی ہے۔ یہ ہوا افواہ کی طرح کی چیز ہے۔ چودھری سرور کے ایک بیٹے عاطف سرور کے خلاف لاکھوں پونڈز کی منی لانڈرنگ کا مقدمہ چلا۔ اس کی سرپرستی چودھری سرور اور انس سرور کرتے ہیں۔ اس کیس میں بھی وہ پاکستانی ”طریقے“ اختیار کرکے بچ نکلے۔ ان باتوں کے لئے ملک ربانی صاحب اور اسداللہ غالب بہت جانتے ہیں مگر بتاتے نہیں۔ چودھری سرور کی ذہنیت گاﺅں کے وڈیرے والی ہے۔ جبکہ وہ وڈیرے نہیں ہیں۔ وہ انگلستان جا کے بھی اس ”جاگیردارانہ“ بالادستی کو نہیں بھولے۔ وہ دولت اور طاقت کا رعب پاکستان میں آ کے دکھا سکتے ہیں۔ انہوں نے کچھ فلاحی کام بھی کئے اور صرف اپنے آبائی علاقے میں کئے ہیں۔ امیری اور حکمرانی تو اپنے لوگوں کو دکھائی جاتی ہے۔ افواہیں خبروں سے زیادہ اہم ہوتی ہیں۔ عطا صاحب نے بہت معرکتہ الآرا کالم لکھا ہے۔ اسداللہ غالب کا کالم بھی زبردست ہے۔ اس میں پاکستان دوستی کو سرور دوستی پر ترجیح دی گئی ہے۔ یہ کالم انگلستان میں اور خاص طور پر گلاسکو میں محمد سرور کے ووٹرز کو ضرور پڑھنے چاہئیں۔ میں نے تو بہت پہلے لکھا تھا کہ برادرم عطاءالحق قاسمی کو گورنر بنایا جا رہا ہے۔ مجھے اب بھی یہ یقین ہے۔ وہ الحمرا آرٹس کونسل کے پڑوس میں گورنر ہاﺅس کے اندر ڈیرہ لگائیں گے۔ یہ ادبی ڈیرہ ہو گا جہاں غیر ادبی یعنی نیم سیاسی کارروائیوں کی بھی حوصلہ افزائی ہو گی۔ سلمان تاثیر نے گورنر ہاﺅس کو سیاسی ڈیرہ بلکہ زرداری ڈیرہ بنایا تھا۔ عطاءنے آرٹس کونسل کو بھی اپنی ذاتی معرکہ آرائیوں سے ایک عالمی گڑھ بنا لیا تھا مگر پاکستانی دوستوں کو خفا کر لیا۔ اس کی خبر شریف برادران کو بھی ہے۔ چودھری صاحب جب جس کی حکومت ہوتی ہے اس کے ساتھ ہوتے ہیں۔ عطاءصاحب نے ان کے زبردست جیالا ہونے کی خبر بھی دی ہے۔ اس کے باوجود وہ گلاسکو میں ان کے مہمان عزیز ہوتے ہیں۔ جب چودھری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو چودھری سرور ان کے بہت قدردان تھے۔ اب وہ نواز شریف کے بہت قریب ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ بڑے ”کامیاب“ آدمی ہیں۔
اسداللہ غالب نے کہا کہ نیٹو کی فوجیں پاکستان کی سرحد پر بیٹھی ہیں۔ ان کا سربراہ برطانیہ ہے۔ اگر وہاں کچھ گڑبڑ ہوتی ہے تو چودھری سرور انگلستان کی حمایت کریں گے۔ پارلیمانی نظام میں گورنر ایک رسمی عہدہ ہے۔ گورنر ہاﺅس میں سوائے گپ شپ کے کچھ نہیں ہو سکتا۔ چودھری سرور اگر یہ بظاہر بیکار منصب قبول کر رہے ہیں تو دال میں کچھ کالا ہے۔ سانولا تو ضرور ہے۔ ”سانول موڑ مہاراں“ برطانیہ نے چودھری سرور کی ڈیوٹی لگائی ہو گی۔ وہ پاکستان میں انگلستان کی نمائندگی کریں گے۔ ان سے گزارش ہے کہ مفادات اپنی جگہ مگر وہ برطانوی پارلیمنٹ کی توہین نہ کریں۔ مجھے تو دو گورنر اچھے لگے ہیں وہ گورنر مغربی پاکستان تھے مگر رہے تو اسی گورنر ہاﺅس میں تھے۔ شاید کسی کو غلام مصطفیٰ کھر کا زمانہ یاد ہو۔ جب گورنر ہاﺅس میں ”کھرمستیاں“ بہت مشہور ہوئی تھیں۔ بھٹو صاحب نے ایرانی شاہ سے گورنر پنجاب کا تعارف کرایا تو کہا یہ ”خر پنجاب است“ یہ بات اخبارات میں شائع ہوئی تھی۔ مجھے شاعر ادیب عامر بن علی کی بات پسند آئی کہ مجھے سب کچھ جاپان نے دیا ہے۔ میں جاپان اور پاکستان کی سانجھی عزت کے لئے کوشش کروں گا۔