”برگر کلاس کا انقلاب“

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر محترمہ عاصمہ جہانگیر بھی ”انقلاب، انقلاب اور انقلاب“ کی آوازوں سے حیران ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”کوئی کینیڈا سے انقلاب لا رہا ہے اور کوئی پاکستان میں رہ کر ہی برگر کلاس کا انقلاب“ لانا چاہتا ہے لیکن پاکستان کو اِس طرح کے انقلاب کی ضرورت نہیں۔“ محترمہ عاصمہ جہانگیر نے ہر دَور میں عوام کے لئے کی جانے والی جدوجہد میں وُکلّاکے کردار کو سراہا۔ دراصل ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے الگ وطن کے قیام کا خواب بھی ایک وکیل علّامہ اقبالؒ نے ہی دیکھا اور اُس خواب کو شرمندہ¿ تعبیر بھی ایک دوسرے وکیل حضرت قائدِاعظمؒ نے کِیا تھا۔
مَیں اکتوبر 1958ءمیں گورنمنٹ کالج سرگودہا میں سیکنڈ ائر کا طالب علم تھا جب صدر سکندر مرزا نے مُلک میں مارشل لاءنافذ کِیا۔ 27 اکتوبر کو افواجِ پاکستان کے کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان نے سکندر مرزا کو دیس نکالا دے کر چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھال لِیا اور قوم کو بتایا گیا کہ ”پاکستان میں انقلاب آ گیا ہے۔“ پاکستان ایک سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ نے بنایا تھا۔ لیکن ”قائدِ انقلاب“ جنرل ایوب خان نے اعلان کِیا کہ ”اب پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی ضرورت نہیں۔“ ایوب خان نے مارشل لاءکی مخالفت کرنے والے کالا کوٹ پہننے والے وُکلّاءکو ”کالے کوّے“ کہا تھا۔ جِس پر وُکلّاءبرادری اور دانشور طبقے نے سخت مذمت کی تھی۔ اُس وقت لاڑکانہ کے ایک جاگیر دار وکیل جناب ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب خان کی کابینہ میں شامل تھے۔
جنابِ بھٹو 7 اکتوبر 1958ءکو قائم ہونے والی صدر سکندر مرزا کی مارشل لائی کابینہ میں بھی شامل تھے۔ جناب بھٹو نے صدر سکندر مرزا کو خط لکِھا تھا کہ ”جنابِ صدر! آپ قائدِاعظمؒ سے بھی بڑے لیڈر ہیں۔“ اُس وقت جنابِ بھٹو کی عمر 29 سال تھی۔ جنابِ بھٹو مردانہ وجاہت کا نمونہ تھے۔ جدید طرز کا لباس بھی پہنتے تھے اور نوجوان طبقہ انہیں اپنا آئیڈیل سمجھتا تھا۔ اِن میں برگر گروپ کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں زیادہ تھیں۔ 1965ءکی پاک بھارت جنگ کے دوران وزیرِ خارجہ کی حیثیت سے بھٹو صاحب نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہُوئے اعلان کِیا کہ ”ہم (یعنی پاکستان کے عوام) مقبوصہ کشمیر کو آزاد کرانے کے لئے بھارت سے ایک ہزار سال تک جنگ کریں گے۔“
جنابِ بھٹو کو مغربی پاکستان (خاص طور پر پنجاب) کے عوام نے ہاتھوں ہاتھ لِیا جب وہ ایوب حکومت سے الگ ہو کر 30 نومبر 1967ءکو اپنی جماعت (پاکستان پیپلز پارٹی ) قائم کر کے اُس کے چیئرمین منتخب ہو گئے۔ بھٹو صاحب کی عُمر اُس وقت 38 سال تھی۔ 8 مارچ 1970ءکو جنابِ بھٹو نے باغ بیرون موچی دروازہ لاہور میں ایک بہت بڑے جلسہ¿ عام سے خطاب کِیا۔ مَیں جلسہ گاہ میں موجود تھا جب بھٹو صاحب نے کہا کہ ”میرے مخالف سیاستدان کہتے ہیں کہ عوام میرے جلسوں میں مجھے سُننے کے لئے نہیں بلکہ دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔“ پھر انہوں نے سٹیج پر چاروں طرف گھوم کر سامعین سے پوچھا کہ ” کیا میں دلیپ کمار ہوں“ فی الحقیقت اُس دور میں جنابِ بھٹو، نوجوان طبقے میں نامور فلمی ہیرو دلیپ کمار سے بھی زیادہ پاپولر تھے۔ جلسہ گاہ تالیوں سے گونج اُٹھی تھی اور لوگ رقص کرتے ہُوئے۔ ”بھٹو جئے ہزاروں سال“ کے نعرے لگا رہے تھے۔ جِن میں شامل ”برگر کلاس“ کے لوگ زیادہ پُرجوش تھے۔
اُن دِنوں فلموں میں بھی خوبصورت نوجوان ہیروز آتے تھے، جنہیں ”چاکلیٹ ہیروز“ کہا جاتا تھا۔ جب فلموں میں ”ولن سلطان راہی“ جیسے لوگ ہیرو آنے لگے تو سیاست میں بھی چاکلیٹ ہیروز کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو خوبصورتی کے نمبر ملتے رہے ہیں اور اب نئے دورکے برگر کلاس کے لیڈر بلاول بھٹو زرداری کو اپنے نانا کی ہُو بہو شکل کہا جاتا ہے۔ عمران خان 50 سال کی عُمر میں سیاست میں آئے۔ اب اُن کی عُمر 62 سال ہے۔ محترمہ عاصمہ جہانگیر کو گِلہ ہے کہ ”عمران خان اب بھی خود کو نوجوانوں کا لیڈر سمجھتے ہیں اور نئے دور کی برگر کلاس اُن کی شیدائی ہے۔ یہ ایسے لوگ ہیں کہ جِن کو انقلاب کی ضرورت ہی نہیں۔“ بہرحال حقیقت یہ ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف میں شامل برگر کلاس کے لوگوں میں۔ جنابِ بھٹو کے ابتدائی دَور کی پاکستان پیپلز پارٹی کی نسبت زیادہ جارحیت ہے۔
کچھ بھی کہا جائے علّامہ طاہر اُلقادری کی نسبت جناب عمران خان نوجوان طبقہ (خاص طور پر برگر کلاس کے) آئیڈیل سیاستدان سمجھے جاتے ہیں۔ علّامہ اُلقادری خود کو ہندوﺅں کے مہا دیو ”شِوا“ (تباہی و بربادی کا دیوتا) سمجھتے ہیں۔” شِوا“ کی تین آنکھیں ہیں۔ پاکستان کے عوام اور خواص علّامہ طاہر اُلقادری کے غیظ و غضب سے اِسی لئے محفوظ ہیں کہ علّامہ صاحب کو قدرت نے تیسری آنکھ نہیں دی۔ لندن میں رونق افروز پاکستان میں ریموٹ کنٹرول پارٹی چلانے والے الطاف حسین کے ”انقلاب“ میںہمیشہ ایک آنچ کی کمی رہ جاتی ہے۔ چودھری برادران کا ”انقلاب“ تو ہر رنگ کے ”انقلاب“ میں سما جاتا ہے۔ میاں نواز شریف نے ابھی وزارتِ عظمیٰ کا حلف نہیں اُٹھایا تھا کہ 28 مئی 2013 ءکو مجاہدِ تحریکِ پاکستان ڈاکٹر مجید نظامی کی سرپرستی/ چیئرمین شپ میں سرگرم عمل دو نظریاتی اداروں ”تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ“ اور نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ“ کے اشتراک سے ”یومِ تکبیر“ کی تقریب سے خطاب کرتے ہُوئے انہوں نے کہا تھا کہ ”مَیں نے وزیرِاعظم کی حیثیت سے ایٹمی دھماکا کِیا تھا اب ”معاشی دھماکا“ کروں گا۔“
جو لوگ بھوک ، بیروزگاری‘ مہنگائی، جہالت اور بیماری سے بچ نِکلتے ہیں انہیں کوئی ٹارگٹ کِلر اور دہشت گرد مار دیتا ہے۔ وزیرِ خزانہ جناب اسحاق ڈار نے 9 جون کو راولپنڈی کی ایک مذہبی تقریب سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ”مجھے حضرت داتا گنج بخش ہجویریؒ نے ”آن ڈیپوٹیشن“ وزیرِ خزانہ بنا کر اسلام آباد بھیجا ہے۔“ ڈار صاحب ہر روز زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کی نوِید دیتے ہیں لیکن آلو، پیاز اور دوسری اشیائے خور و نوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر اُن کا کوئی کنٹرول نہیں۔ پھر ہر سیاسی/ مذہبی جماعت کا قائد ”انقلاب کا جھنڈا“ لے کر میدان میں کیوں نہ اُترے؟ اور علّامہ طاہر اُلقادری اور دوسرے مذہبی لیڈروں کے پاس تو ”فتویٰ فروشی کے ڈنڈے بھی ہیں۔“
حقیقت تو یہ ہے کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کی ”ردِ انقلاب“ کی سازش نے تو پاکستان میں غریبوں کے حق میں آنے والے انقلاب کا راستہ ہی روک دِیا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا انقلابی کارنامہ یہ ہے کہ ”بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام“ کے تحت چند غریب، معمر اور بیوہ عورتوں کو ایک ہزار روپے مِل جاتے ہیں۔ محترمہ عاصمہ جہانگیر نے درست کہا ہے کہ ”برگر کلاس“ کو تو انقلاب کلی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن کیا کِیا جائے کہ غربت کی لِکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے لوگ تو فی الحال انقلاب کے پہلے مرحلے پر ہیں۔ (یعنی خودکشی کرنے اور بھوک سے بِلکنے والے اپنے بچوّں کی جان لے کر۔ لیکن جب اِن کا مغز پھر گیا تو کیا نہیں ہو سکتا؟ --- تاریخ کے اوراق اِس طرح کے ان گنت واقعات سے بھرے پڑے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن