پاکستان کا 53 رکنی دستہ کامن ویلتھ گیمز میں شرکت کے لئے آج اسلام آباد سے گلاسگو کے لئے روانہ ہو گا جبکہ 9 رکنی رائفل شوٹنگ ٹیم پہلے ہی میگا ایونٹ میں شرکت کے لئے پہنچ چکی ہے۔ 71 ممالک کے چار ہزار 84 اتھلیٹ 17 ڈسپلن میں حصہ لیں گے۔ پاکستان میں کھیلوں کے حوالے سے گذشتہ دو سال سے پیدا شدہ صورتحال کے پیش نظر ہمارے کھلاڑی ان گیمز میں بغیر کسی تیاری اور حکمت عملی کے شرکت کر رہے ہیں جسے شرکت برائے شرکت کا ہی نام دیا جا سکتا ہے میڈلز کی توقع رکھنا عبث ہو گا۔ میگا ایونٹس میں شرکت کے لئے تمام ممالک کے کھلاڑی گذشتہ تین چار سال سے بھرپور تیار کر رہے تھے ان کے ممالک نے اپنے کھلاڑیوں کو ان گیمز کی تیاری کے لئے قومی اور بین الاقوامی سطح پر سہولیات میسر کر رکھی تھیں۔ بھارت جس نے 2010ءکی کامن ویلتھ گیمز کی میزبانی کے فرائض انجام دیئے تھے 2014ءکے ایونٹ کو اس نے ہدف بنا رکھا ہے جبکہ ہماری حالت یہ ہے کہ ہمارے کھلاڑی کو میگا ایونٹ میں شرکت سے 24 گھنٹے پہلے تک یہ نہیں پتہ تھا کہ آیا۔ انہوں نے گیمز میں شرکت کرنی بھی ہے کہ نہیں۔ جس کی تمام تر ذمہ داری پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کی ملک میں بننے والی متوازی تنظیم پر عائد ہوتی ہے جو صرف و صرف اقتدار کے لالچ میں کھلاڑیوں کا نقصان پر نقصان کرتے چلے گئے ہیں۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ حکومت پاکستان کو اصل حقائق کا علم ہو گیا اور انہوں نے بروقت اقدامات کرکے نہ صرف پاکستان کو پابندی سے بچا لیا بلکہ کھیلوں کی ملک میں اصل نمائندہ تنظیم کو بھی تسلیم کر لیا جو انتہائی خوش آئند ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان ہاکی ٹیم کامن ویلتھ گیمز میں شرکت سے محروم رہ رہی ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو کم از کم ایشین گیمز میں ٹائٹل کا دفاع کرنے سے پہلے پاکستان ہاکی ٹیم کو انٹرنیشنل میچز کی سہولیت میسر آ جانی تھی۔ بہرکیف ایسا نہیں ہوسکا کیونکہ اب بہت دیر ہو گئی ہے۔ 2010ءکی کامن ویلتھ گیمز میں پاکستانی دستے کا پرچم مرحوم ڈاکٹر محمد علی شاہ نے اٹھایا تھا اس مرتبہ یہ اعزاز وفاقی وزیر بین الاصوبائی رابطہ کمیٹی ریاض حسین پیرزادہ کے حصے میں آئے گا۔ کامن ویلتھ گیمز کی تاریخ گواہ ہے کہ آج تک ہونے والی گیمز میں پاکستان نے 65 میڈلز جیت رکھے ہیں جن میں سے 37 میڈلز صرف ریسلنگ کے حصہ میں آئے ہیں۔ پاکستان ریسلنگ فیڈریشن کے صدر چودھری اصغر نے امید ظاہر کی ہے کہ قومی ریسلرز اس مرتبہ بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے اور میڈل لیکر آئیں گے۔ انہوں نے یہ بات تسلیم کی کہ ہمارے پہلوانوں کو بین الاقوامی میچز اور ٹریننگ نہیں مل سکی ہے اس کے باوجود مجھے اپنے پہلوانوں پر یقین ہے کہ وہ کچھ کر دکھائیں گے۔ کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان کی جانب سے نئی تاریخ رقم ہونے جا رہی ہے جب ایک ہی خاندان کے تین افراد اکھٹے کھیلوں میں شریک ہوں گے۔ سوئمنگ کے ایونٹ میں پاکستان کی گولڈن گرل کرن خان‘ اپنی 12سالہ بہن بسمٰہ خان اور بھائی سکندر خان کے ساتھ شرکت کریں گی۔ پاکستان سوئمنگ فیڈریشن کے صدر میجر (ر) وسیم کا کہنا ہے کہ جب ہمارے کھلاڑیوں کو اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ کھیلوں میں ان کی نمائندگی ہونی بھی ہے کہ نہیں، ایسے میں ان سے اچھی کارکردگی اور میڈلز کی کس طرح توقع کی جا سکتی ہے۔ جب ہماری کھیلوں کی تنظیموں کے عہدیداران ایسی باتیں کریں اور کھلاڑی دو سال تک اس کشمکش میں رہیں کہ انہیں حکومت بین الاقوامی کھیلوں میں شرکت کی اجازت دے گی بھی یا نہیں وہ کیونکر اتنی محنت کریں۔ کامن ویلتھ گیمز میں قومی دستہ انٹرنیشنل میچز کی تیاری کے بغیر جا رہا ہے ایسے میں اگر کوئی میڈل پاکستان کے نام ہو جاتا ہے تو یہ غنیمت ہوگی تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ دو ماہ بعد ایشین گیمز کا انعقاد کوریا میں ہونے جا رہا ہے اس کی تیاری کے لیے کھلاڑیوں کے مسلسل تربیتی کیمپس لگائے جائیں اور انہیں وہ تمام سہولیات میسر کی جائیں جن کی مدد سے کھلاڑی ایشین گیمز میں اچھا پرفارم کرکے میڈل جیت سکیں۔ ایشین گیمز میں تمام نظریں ہاکی ٹیم پر ہونگی کیونکہ اس نے اعزاز کا دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ 2016ءکے اولمپک مقابلوں کے لئے بھی کوالیفائی کرنا ہے۔