ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ملک پاکستان کے سفاک ترین حکمران ضیاءالحق کےخلاف احتجاجی تحریک چلانے کا فیصلہ ہوا جس کا اعلان (MRD) ”تحریک بحالی جمہوریت“ کے نام سے وجود میں آنےوالے سیاسی اتحاد نے کیا (MRD) کی صف اول کی تمام سیاسی قیادت جیلوں میں تھی۔ اصغر خاں ایبٹ آباد میں پانچ سال کی طویل نظری کاٹ رہے تھے۔ بیگم نصرت بھٹو بھی کراچی میں نظر بند تھیں۔ نوابزادہ نصراللہ اپنے آبائی شہر خان گڑھ میں بند تھے۔ خان عبدالولی خاں کو ولی باغ سے باہر نکلنے کی اجازت نہ تھی۔ مولانا فضل الرحمان صوبہ پختون خواہ سے لاہور آکر زیر زمین تھے البتہ ملک قاسم مرحوم نے لاہور‘ کراچی اور پشاور میں وکلاءکے کنونشن منعقد کروا کر سیاست کو زندگی بخشی ہوئی تھی۔ انکے ساتھ مسلم لیگ کے مقصود شاہ‘ قاری اشفاق اللہ سیف اللہ سیف اور لاہور سے ترقی پسند جماعت قومی محاذ آرائی کے پرویز صالح‘ مصدق ایڈووکیٹ‘ افتخار شاہد‘ ارشد بٹ‘ نیشنل عوامی پارٹی کے را¶ مہروز اختر‘ فاروق قریشی‘ احسان وائیں اور تحریک استقلال کے چودھری طارق عمر منظور گیلانی‘ ظفر گوندل جمہوری پارٹی کے رشید قریشی‘ نواز گوندل‘ رانا ذوالقرنین اور پیپلز پارٹی کے جہانگیر بدر‘ اسلم گورداسپوری شیخ رفیق اور دیگر جمہوریت پسند سیاسی کارکن شامل تھے۔ جو لاہور کے مختلف مقامات پر خفیہ طور پر اکٹھے ہوتے اور آئندہ کا لائحہ عمل بناتے یہ اجلاس کبھی میو ہسپتال کی کنٹین میں کبھی کسی نہر کے کنارے اور کبھی قذافی سٹیڈیم کے گردونواح یا کبھی سمن آباد کے نیشنل بنک کالونی میں ہوتے تحریک چلانے کا فیصلہ ملک حامد سرفراز نے اپنی صدارت میں ہونیوالے ایک اجلاس میں کیا اعتزاز احسن بھی اس اجلاس میں شامل تھے جو گلبرگ کی ایک کوٹھی میں منعقد ہوا۔ یہ کوٹھی بیگم شہناز جاوید کی ملکیت تھی اور وہی بیگم مہناز رفیع کے ہمراہ اجلاس کی میزبان تھیں۔ دونوں خواتین بڑی جگر دار اور آن بان والی سیاسی کارکن تھیں۔ شہناز جاوید بعد میں چیچہ وطنی سے قومی اسمبلی کی براہ راست رکن منتخب ہوئیں۔ آپا مہناز رفیع 2002ءمیں قومی اسمبلی کے ایوانوں میں پہنچیں شہناز جاوید ایک طویل عرصہ سے میدان سیاست سے غائب ہیں جبکہ مہناز رفیع ابھی تک سرگرم عمل ہیں (اللہ انہیں لمبی عمر دے) یہ تحریک استقلال کا اپنا جماعتی اجلاس تھا (MRD) کی دیگر جماعتوں نے اپنے اپنے طور پر اجلاس کئے آخری اور فیصلہ کن اجلاس تقریباً 10 اگست کو رات 2 بجے میں نے بحیثیت سیکرٹری جنرل (MRD) قذافی سٹیڈیم کے گرد نواح میں ایک پارک میں خفیہ طور پر بلایا جس میں پیپلز پارٹی کے جہانگیر بدر اور دیگر جماعتوں کے چند ساتھی شریک ہوئے زیادہ کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ اجلاس زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ تک چلا اور فیصلہ ہوا کہ 14 اگست کو لاہور ہائیکورٹ کے مال روڈ یعنی صدر دروازے سے گرفتاری دے کر تحریک کا آغاز کیا جائیگا۔ پہلے مرحلے میں پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک استقلال کی طرف سے دو دو آدمی گرفتاری دیں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے سابق صدر پاکستان فاروقی احمد خاں لغاری اور لاہور سے سابق ایم پی اے اشتیاق بخاری جبکہ تحریک استقلال کی طرف سے قرعہ فال میرے اور چودھری اعتزاز احسن کے نام نکلا۔ اس سے ایک دن قبل ”ضیاءحمایت تحریک“ نامی ایک فاشسٹ گروہ جو جماعت اسلامی کے لٹھ برداروں پر مشتمل تھا (جو بعد میں ترقی کرتے کرتے کلاشنکوف اور ”جیکٹ بردار“ ہو گئے) اس نے اخبارات میں چیلنج دے دیا تھا جو کوئی بھی ”مرد مومن حق ضیاءالحق“ کے خلاف جلوس نکالے گا اس کا منہ کالا کرکے گدھے پر بٹھایا جائیگا۔ اس بیان سے سیاسی حلقوں میں بڑی تشویش پائی گئی کیونکہ یہ سزا تو ابھی تک خود ضیاءالحق نے بھی کسی سیاسی مخالف کو نہیں دی تھی۔ جماعت اسلامی کے لوگ ویسے بھی ان کاموں میں بڑے ”اولی العزم“ ہوتے ہیں۔ 14 اگست کی سہ پہر جب میں ہائی کورٹ کے گیٹ پر گرفتاری دینے کےلئے پہنچا تو فاروق لغاری چند لمحے پہلے وہاں پہنچ چکے تھے جنہیں دیکھ کر عوام کا ہجوم بننا شروع ہو گیا تھا۔ میں نے پہنچ کر مارشل لاءکے خلاف تقریر شروع کی تو سہا ہوا ہجوم ہم دونوں کو دیکھ کر گیٹ پر اکٹھا ہو گیا۔ اس دوران فاروق لغاری نے جب اپنی تقریر شروع کی تو میری نظر مال کے اس پار GPO بس سٹاپ پر پڑ گئی۔ چودھری اعتزاز احسن غالباً اپنی اہلیہ کے ہمراہ گاڑی میں سوار نظر آئے تو مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ اگر پیپلز پارٹی کے اشتیاق بخاری گرفتاری دینے نہیں آئے تو ہم تحریک استقلال والے دو عدد ہو کر بازی لے جائینگے۔ گیٹ کے بائیں جانب جس سڑک پر سٹیٹ بنک آف پاکستان ہے وہاں پچاس کے لگ بھگ باریش نوجوان گدھوں کی لگامیں پکڑ کر ایوان اوقاف والی گلی کی نکڑ پر مرد مومن کے نعرے لگاتے ہوئے پہنچ چکے تھے۔ چند ایک کے ہاتھوں میں بالٹیاں اور کنستر بھی موجود تھے۔ خدا جانے ان میں کالا رنگ تھا کہ نہیں لیکن چاروں اطراف انکے نعروں سے گونج رہے تھے اور فضا میں شدید قسم کا خوف پایا جاتا تھا۔ چودھری اعتزاز احسن نے GPO سٹاپ کے قریب سے جب یہ منظر دیکھا تو فیصلہ بدل لیا گرفتاری دینے کےلئے فاروق لغاری اور میں حاضر تھے۔ شام ہونے تک ہمیں کوٹ لکھپت جیل لاہور پہنچا دیا گیا۔ جہاں پہلے سے موجود ملک حامد سرفراز جو گزشتہ رات سے گرفتار ہوئے تھے اور را¶ رشید نے ہمارا استقبال کیا۔
چودھری اعتزاز احسن کی ذہانت مسلمہ تھی ایسے لوگوں کو ذوالفقار علی بھٹو پسند کرتے تھے اس لئے جب پیپلز پارٹی کے ایک ممبر صوبائی اسمبلی چودھری انور سماں دنیا سے گئے تو خالی جگہ پر کرنے کےلئے بھٹو نے گجرات کے اس حلقہ سے اعتزاز احسن کو صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دےکر منتخب کروایا چند ہی دنوں میں انہیں پنجاب کا وزیر اطلاعات بھی بنا دیا گیا چودھری صاحب 9 اپریل 1977ءتک پیپلز پارٹی کے اہم رہنما رہے پھر ”پاکستان قومی اتحاد“ وجود میں آیا اور ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ایسی تحریک چلی کہ نہ اس سے پہلے اور نہ بعد میں کسی حکمران کیخلاف چلی ہو گی۔ (باقی آئندہ)
اس تحریک کے دوران دھاندلی دھاندلی کا ایسا شور اٹھا کہ کوئی معقول آواز سنائی نہ دیتی تھی یہ ایک سیاسی تحریک تھی مگر افسوس کے اس کا رخ موڑ دیا گیا۔ تحریک کا رخ کیا مڑا کہ تاریخ کا رخ مڑ گیا۔ اس دھاندلی کے خلاف قومی اتحاد نے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔ بائیکاٹ اتنا متحد اور مضبوط تھا کہ پورے ملک کے چاروں صوبوں میں اتحاد کا غالباً ایک بھی صوبائی امیدوار نہ تھا۔ آزاد امیدوار تو آٹے میں نمک کے برابر ہوں گے۔ پیپلز پارٹی کے تمام صوبائی امیدوار اس بائیکاٹ کے سبب اسمبلیوں کے ارکان منتخب ہو گئے۔ پنجاب اسمبلی کا افتتاحی اجلاس 9 اپریل 77ءکو طلب کر لیا گیا۔ اس موقع پر قومی اتحاد کے رہنما¶ں نے اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر اس کے گھیرا¶ کا اعلان کر دیا اتحاد کے اکثر رہنما جیلوں میں بند تھے نوابزادہ نصراللہ خاں چونکہ ابھی تک گرفتار نہیں ہوئے تھے اس گھیرا¶ کی قیادت انہوں نے کی۔ پورے پنجاب کی پولیس کو لاہور طلب کر لیا گیا پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی کو تو بحفاظت ہال میں پہنچا دیا گیا۔ مگر ہال سے باہر کا حال بڑا غضب ناک تھا۔ چونکہ جلوس میںخواتین کی بھی ایک بہت بڑی تعداد شامل تھی لہٰذا ان سے نمٹنے کیلئے خواتین پولیس کے جو دستے تعینات کئے گئے‘ انہیں اتحاد کی قیادت نے ”نتھ فورس“ کا نام دیا۔ یعنی وہ دستے پولیس فورس کے نہیں بازارحسن کی عورتیں تھیں جنہیں عارضی طورپر وردیاں پہنا کر مسلح کیا گیا تھا کہ خواتین کے جلوس کو منتشر کر سکیں۔ مال روڈ پر انسانوں کے ہجوم کے ہجوم در آئے۔ احتجاج کا ایک ایسا سیلاب تھا جسے کوئی نہ روک سکتا تھا۔ ”نتھ فورس“ پر لوگ غالب آگئے۔ موسلادھار بارش کی طرح لاٹھی چارج ہوا۔ سر پھٹے‘ ٹانگیں ٹوٹیں‘ کندھے اتر گئے‘ ہمارے ساتھی سعید آسی کو بھی زبردست تشدد کا نشانہ بننا پڑا۔ لوگ لہولہان تھے کہ اچانک ایک طرف سے نوابزادہ نصراللہ خان بھی جلوس کی قیاد ت کر رہے تھے۔ عوام کے کندھوں پر براجمان اسملی کی طرف رواں دواں ہوئے۔ شام تک بپھرا ہوا ہجوم ذرا تھم گیا۔ پیپلزپارٹی احتجاجی محاذ پسپا ہو چکی تھی۔ ایسے میں جب اسے کسی سیاسی اور اخلاقی قوت کی ضرورت تھی کہ ممبر صوبائی اسمبلی چودھری اعتزاز احسن نے ایک پریس کانفرنس میں نہ صرف صوبائی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیا بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں ”شرطیہ نئے پرنٹوں کے ساتھ“ ”الزامات سے بھرپور“ ایسی فلم چلائی کہ وہ سیاسی و اخلاقی قوت جس کی چودھری صاحب کی پارٹی کو ضرورت تھی وہ ”قومی اتحاد“ کے نصیب میں آگئی اور یوں چودھری اعتزازاحسن مستعفی ہوکر واپس چلے گئے۔
جب ضیاءالحق نے اقتدار پر قبضہ کیا تو چودھری صاحب کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے مارشل لاءکا خیرمقدم کرنے کی بجائے اس کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ملک میں ہر طرف فوج اور خوف کا راج تھا۔ جماعت اسلامی اور دیگر پیشوا حکومت کے دست و بازو تھے۔ مولانا ادریس کاندھلوی صاحب مرحوم کا بیان بھی سامنے آگیا کہ ”پہلا مارشل لاءحضرت ابوبکر صدیق نے لگایا تھا“ گویا ان کے نزدیک حکومتی عملداری (رٹ آف گورنمنٹ) مارشل لاءکا ہی دوسرا نام تھا۔ اس ماحول میں سیاسی کارکنوں کو کوڑے مارنا بڑا آسان ہو گیا۔ زندانوں کے دروازے کھل گئے۔ سیاسی کارکنوں‘ وکلاءاور صحافیوں کو ٹکٹکیوں پر باندھ کر ان کے خون اور گوشت کا تماشا دیکھا گیا۔ یہاں بھی ضیاءالحق نے ایک تمیز قائم کر دی۔ شاہی قلعے‘ وارث روڈ اور چونامنڈی کے قصائی خانوں میں تفتیش کے علاوہ کوڑے صرف پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو مارے جاتے۔ MRD میں شامل دیگر جماعتوں کو کوڑوں کی چھوٹ تھی۔ جیل خانوں میں ان کی تعداد البتہ پیپلزپارٹی سے زیادہ رہی۔ گرفتاریاں بھی انہوں نے زیادہ دیں۔ اس ماحول کا شاید چودھری صاحب کو اندازہ تھا اسی لئے انہوں نے تحریک استقلال میں شمولیت اختیار کر لی۔ چاہتے تو پیپلزپارٹی واپس جا کر سجدہ سحو کر سکتے تھے مگر پیپلزپارٹی میں جانا خطرے سے خالی نہ تھا اسی لئے فیصلہ بدل لیا۔
1985ءکے موسم گرما میں لندن میں تھا۔ ایک دن ہیتھرو ایئرپورٹ پر ایک دوست کے ساتھ جانا ہوا تو چودھری اعتزاز کو ایئرپورٹ سے باہر نکلتے دیکھا۔ ان سے علیک سلیک ہوئی۔ معلوم ہوا کہ وہ تحریک استقلال گجرات کے رہنما میر بشیر کے گھر قیام پذیر ہونگے۔ اگلے روز میر صاحب کا فون نمبر تلاش کرکے ان کے گھر پہنچا تو چودھری صاحب جلدی جلدی تیار ہوکر اہم کام کے سلسلے میں جا رہے تھے۔ پوچھنے پر منزل کا اتہ پتہ نہ دیا۔ شاید اس لئے کہ وہ محترمہ بینظیر بھٹو سے ملنے جا رہے تھے اور میں تحریک استقبال پنجاب کا جنرل سیکرٹری تھا۔ انہیں اندیشہ تھاکہ کہیں یہ ملاقات ایئر مارشل اصغر خان کے علم میں نہ آجائے‘ تاہم بینظیر بھٹو کی وطن واپسی اور 1988ءکے انتخابات تک چودھری صاحب تحریک استقلال سے وابستہ رہے۔
چودھری اعتزاز احسن وڑائچ جنرل پرویز مشرف کے خلاف ”عدلیہ بحالی“ کی تحریک میں پھر نمایاں ہوئے۔ ”رستم مانٹی کارلو“ رانا ارسلان کے والد جسٹس رانا افتخار چودھری کے ڈرائیور بن کر ”دنیا کی تاریخ میں لوگو کب کوئی منصف پیدا ہوا ہے۔“ ”عدل بنا جمہور نہ ہوگا اور ریاست ہوگی۔ ماں کے جیسی“ جیسے نعروں سے وکلاءکو گرمایا اور پھر ان کو بے منزل چھوڑ دیا۔ نوازشریف کے ساتھ مل کر ایک عدد نہ ہونے والے دھرنے کے آئینی احتجاج کی کمائی نوازشریف کی جھولی میں ڈال کر واپس چلے گئے۔
حیراں ہوں کہ وہ اعتزاز احسن جس نے ذوالفقار علی بھٹو جیسی نابالغہ روزگار قیادت کو عوام دشمن قرار دیکر پیپلزپارٹی سے استعفیٰ دیدیا تھا‘ آج آصف علی زرداری جیسے حقیقی عوام دشمن کے سامنے لب کشائی کی ہمت بھی نہیں کر سکتا۔ ملک بھر کے وکلاءکے آزاد عدلیہ کے خواب چکنا چور کر دیئے۔ ان کی امیدوں کو ایسے جلا دیا جیسے LPG (ایل پی جی) گیس حارث سٹیل مل کا شعلہ بن کر لوہے کو پگھلا دیتی ہے۔