اجارہ داری سیاست میں ہو، بزنس میں یا کسی بھی شعبہ زندگی میں یہ میرٹ کے قتل اور ناانصافی پر منتج ہو سکتی ہے۔ متمدن اور مہذب ممالک میں تو اجارہ داری یا مناپلی شاید اتنی ضررساں نہیں کیونکہ ان ممالک میں جمہوریت ہے ،انسانیت کا ادراک موجود ہے، اس لیے اجارہ داری کو مہذب معاشروں میں انسانیت کے استحصال کیلئے استعمال کرنے کا خدشہ نہیں رہتا۔ پاکستان جیسے ممالک میں کسی بھی شعبہ میں اجارہ داری کو دوسروں کا بدترین استحصال کرکے اپنے مفادات کی بجاآوری کیلئے بروئے کار لایا جاتا ہے۔ امریکہ جہاں واقعی انسانیت کی قدر ہے اور بل گیٹس جیسے دنیا کے امیر ترین آدمی جس نے اپنی دولت کا بڑا حصہ فلاحی و اصلاحی کاموں کیلئے وقف کر دیا ہے، ایسے شخص کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ وہ اپنے کاروبار کو بڑھانے کیلئے دوسروں کے استحصال کے بارے میں سوچے گا۔ کچھ عرصہ پہلے امریکہ میں ایک آئی ٹی کمپنی کی نیلامی ہوئی تھی جس میں بل گیٹس کے ادارے مائیکروسوفٹ کو حصہ لینے سے روک دیا کہ آئی ٹی کے شعبے میں مائیکروسوفٹ کی اجارہ داری ہو جائے گی۔ ہمارے ہاں معاملہ اس کے بالکل الٹ ہے۔ جہاں جس شعبے میں جس کی اجارہ داری ہے اسکی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی اس کے مدقابل نہ آنے پائے ۔ وہ مقابلے کیلئے کسی کو اٹھنے ہی نہیں دیتا۔ یہ لوگ مافیا کا روپ دھار لیتے ہیں۔ آپ پاکستان میں پراپرٹی کے بزنس کو دیکھ لیں، تمباکو بنانے والوں کے ہتھکنڈوں کا جائزہ لیں، بنکنگ سیکٹر کے حربوں کو دیکھیں یا پھر بجلی پیدا کرنیوالی کمپنیوں کی کارکردگی ملاحظہ کریں ہر کہیں اجارہ داریاں ہیں اور اپنے اپنے طور پر ہر کوئی مافیا بناہواہے اور تو اور تعلیمی شعبوں میں بھی اجارہ داریاں ہیں۔ پاکستان میں جہاں جس کی اجارہ داری ہے اس کیلئے مدمقابل آنے والا ناقابل برداشت ہے۔ دودھ اور گوشت کے کاروبار پر ایک خاندان قابض ،مرغیوں کی خوراک پر بھی اسی خاندان کی اجارہ داری ہے۔
اصل میں تو پاکستان میں اجارہ داریاں توڑنے کا قانون ہونا چاہیے تاکہ انسانیت سسک سسک کر مرنے سے محفوظ رہے۔ اکثر مغربی ممالک میں قوانین کا ماخذ اسلامی لاز ہیں وہ کسی شعبہ میں اجارہ داری کو اپنے مفادات اور دوسروں کے استحصال کیلئے استعمال ہونے کا سرے سے امکان ہی نہیں ہے۔ہمارے ہاں سب سے زیادہ خطرناک سیاست کی اجارہ داریاں ہیں۔ انہی سے مافیاز جنم لیتے ہیں جو میرٹ کا جنازہ نکالنے کا باعث بنتے ہیں۔ انسانیت کو تڑ پ تڑپ اور سسک سسک کر مرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
امریکہ جیسے ملک میں بھی بیٹے کو باپ کی طرح صدر بنتے دیکھا ہے لیکن باپ بیٹے کے نام پر سیاسی وراثت نہیں چھوڑتا۔ باپ بیٹے کی سیاسی تربیت ضرور کرتا ہے لیکن اسے اختیار نہیں ہوتا کہ وہ بیٹے کو اپنی مرضی سے کوئی عہدہ دے۔ حتیٰ کہ پارلیمنٹ کی نشست کیلئے نامزد کر دے، صدر کیلئے امیدوار نامزد کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ہماری سیاست کابیڑہ غرق سیاسی اجارہ داریوں نے کیا ہے۔قیام پاکستان کے بعد سے ان میں اضافہ ہی ہوا ہے اور آج کے دور میں تو سیاست میں چند خاندانوں کی اجارہ داری کے سوا کچھ دکھائی نہیںد یتا۔ پاکستان عوامی تحریک جیسی معدودے چند جماعتوں میں اجارہ داری نام بھی نہیں ہے مگر ایسی پارٹیوں کے راستے مسدود کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔
ولی خان نے سیاسی وراثت اپنے والد خان عبدالغفار سے جس طرح پائی تھی انہوں نے اپنے فرزند ارجمند اسفند یار ولی کے حوالے اسی طرح کر دی۔ ترکے میں بھارت کی چاکری بھی دی،جسے آج کی اے این پی کی قیادت نے ایمان کا حصہ بنایا ہوا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے وراثت اپنے والد مولانا مفتی محمود سے پائی تھی۔ وہ نہ صرف پارٹی عہدے بلکہ وزارتیں بھی اپنے خاندان کے اندر بانٹ رہے ہیں۔ جے یو آئی کا ایک ہی خاندان کے چنگل سے نکلنا ناممکن نظر آتا ہے۔ ق لیگ اگر اصولوں کی بنیاد پر قائم ہوئی ہوتی تو آج اس کا نام و نشان مٹتا نظر نہ آتا۔ لرزتی، کانپتی اور ہانپتی ہوئی پارٹی کو بھی چودھری برادران اپنے خاندان ہی تک محدود رکھنے کیلئے کوشاں ہیں۔ شجاعت کے جاں نشیں پرویز الٰہی اور انکے مونس الٰہی ہیں۔ مونس الٰہی کے پختہ کار سیاست دان بننے تک ہو سکتا ہے ق لیگ کا وجود تاریخ کا حصہ بن کر معدوم ہو چکا ہو۔ پیپلزپارٹی کو وصیت کے زور پر زرداری خاندان نے یرغمال بنا لیا۔ ق لیگ کی طرح اب پیپلزپارٹی وجود سے عدم وجود کی طرف جا رہی ہے۔ شہید ذوالفقار علی بھٹونے بے نظیر بھٹو کی تربیت کی۔ بے نظیر نے ذوالفقار علی بھٹو کی تربیت یافتہ ہونے کا حق ادا کر دیا۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی ہر گزرتے دن کیساتھ اپنی مقبولیت کھوتی چلی گئی ۔اس پر زرداری خاندان نے اجارہ داری قائم کی ۔ سینئر اور اہل و قابل لوگوں کو نظرانداز کر دیا۔ کئی مایوس ہو کر گوشہ عافیت میں چلے گئے اور کچھ نے اپنی پارٹی بدل لی۔اب پارٹی کی حیثیت اجڑے قافلے سے زیادہ کی نہیں ہے۔ زرداری صاحب نے پانچ سال اقتدار میں ملک اور پارٹی دونوں کو ناتواں کر دیا۔
مسلم لیگ ن پر شریف خاندان چھایا ہوا ہے۔ اس خاندان نے مسلم لیگ کو ایساذاتی بنایا کہ نام بھی مسلم لیگ نواز رکھ لیا۔ یہ پارٹی اور اس سے وابستہ لیڈر نہ صرف پارٹی پر اجارہ قائم کیے ہوئے ہیں ۔ سرکاری اداروں پر تو ان کی اجارہ داری بلاشبہ ہے۔ انصاف پر بھی اجارہ داری دکھلا رہے ہیں۔ کونسا بزنس بچا ہے جس پر اجارہ داری نہیں۔ مسلم لیگ ن کے لیڈروں کو عمران خان، الطاف اور زرداری کا جھوٹ بولنا قطعی پسند نہیں۔ یہ لوگ جھوٹ پر بھی اجارہ داری سمجھتے ہیں کہ یہ صرف ان کا حق ہے کوئی دوسرا جھوٹ بھی بولے تو کیوں بولے۔