گرمیوں کے موسم میں ملکہ کوہسار مری سیاحوں کے لئے ہمیشہ پرکشش رہی ہے۔ آج سے بیس پچیس سال پہلے راولپنڈی اور اسلام آباد کو مری سے منسلک کرنے والی ایک سڑک ہوتی تھی جو سترہ میل‘ چھتر‘ بائیس میل ‘ تریٹ‘ چھرہ پانی اور گھوڑا گلی سے ہوتی ہوئی مری جاتی تھی اس سڑک پر گرمیوں کے سیزن کے عروج پر بسوں‘ ویگنوں اور کاروں کی تعداد ایک دو ہزار سے زیادہ نہیں ہوتی تھی اسی دور میں مری میں ٹریفک کا نظام گرمیوں کے موسم میں احسن طریقے سے چلایا جاتا تھا۔ سیاحوں یا مقامی لوگوں کو کسی بڑے مسئلے کا سامنا نہیں ہوتا تھا لیکن پچھلے 20 برس میں حالات نے ایک بڑی کروٹ لی ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں بنکوں نے کار لیزنگ سکیم شروع کی تو لوگوں نے دھڑا دھڑ قسطوں پر کاریں حاصل کرنا شروع کر دیں۔ پاکستان کی سڑکوں پر ٹریفک اس قدر بڑھ گئی کہ اب اسے مینج کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ ہفتہ اور اتوار کو جب سرکاری اداروں میں چھٹی ہوتی ہے تو راولپنڈی اسلام آباد‘ لاہور‘ گوجرانوالہ‘ سیالکوٹ ‘ فیصل آباد کے شہریوں میں سے ویک اینڈ مری میں گزارنے کا رجحان بے حد بڑھ گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ گرمیوں کا موسم شروع ہوتے ہی ہفتہ اور اتوار کے روز ہزاروں گاڑیاں اور موٹر سائیکل مری کی طرف چل پڑتے ہیں۔
مری ایک محدود پہاڑی شہر ہے۔ اس کی سڑکیں انگریزوں کے دور میں تعمیر ہوئی تھیں۔ اس دور میں تو کاریں محدودے چند لوگوں کے پاس ہوتی تھیں۔ اس لئے ان سڑکوں پر ٹریفک کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد نوے کی دہائی تک بھی مری میں ٹریفک کا مسئلہ درد سر نہیں بنا۔ لیکن پچھلے دس سال میں تو مری کی سڑکیں ٹریفک کے اژدہام کو سنبھالنے کی صلاحیت سے محروم ہو گئی ہیں۔ ہفتہ اور اتوار کو ٹریفک کا نظم و نسق چلانے کے لئے راولپنڈی سے سینکڑوں ٹریفک وارڈنز اور دوسرے اہلکار مری پہنچتے ہیں اس کے باوجود ٹریفک قابو میں نہیں ہوتی۔ شہری سڑکوں پر کئی کئی گھنٹے ٹریفک کی طویل لائنوں میں پھنس کر اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ ٹریفک کے منتظمین کی تمام تر کوششوں اور اپیلوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہمارے شہری مری میں داخلے کی کوشش کرتے ہیں بے پناہ رش ہونے کی وجہ سے خود بھی ٹریفک کے ہجوم میں پھنستے ہیں اور دوسروں کو بھی پھنسا دیتے ہیں۔ یہ تو اچھا ہوا کہ مری اور مظفر آباد کو ملانے والی پرانی شاہراہ کے متبادل شاہراہ مری ایکسپریس وے تعمیر ہو گئی ہے جس کے نتیجے میں مری‘ آزاد کشمیر‘ ایوبیہ اور نتھیا گلی کی طرف جانے والی ٹریفک کو اب دو شاہراہیں مل گئی ہیں ورنہ اگر پرانی سڑک ہوتی تو اسلام آباد اور راولپنڈی سے مری جانے والے شہری چھ گھنٹے میں مری تک نہ پہنچ پاتے‘ اب دو سڑکیں ہونے کی وجہ سے ایک یا سوا گھنٹے میں وہ بآسانی مری پہنچ جاتے ہیں۔ ٹریفک کے ناقابل انتظام رش کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کشمیر اور خیبر پختونخوا کے پرکشش علاقوں نتھیاگلی‘ڈولگا گلی‘ ایوبیہ اور باڑا گلی جانے کے لئے بھی لوگ مری سے گزرنے والی سڑکوں کو استعمال کرتے ہیں۔
عید کے تہوار کے دوسرے دن سے راولپنڈی اسلام آباد‘ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں کے رہنے والے مری یاترا کے لئے اتنی بڑی تعداد میں مری کا رخ کرتے ہیں کہ خدا کی پناہ اس مرتبہ اتوار اور پیر کے روز مری جانے والوں نے تو حد کر دی۔ ٹریفک منتظمین کے مطابق پیر کے روز مری میں ایک لاکھ گاڑیاں داخل ہو گئیں۔ 18 ہزار موٹرسائیکل بھی گزشتہ روز مری پہنچ گئے‘ جبکہ مری کی سڑکیں زیادہ سے زیادہ 16 ہزار گاڑیوں کو آسانی سے گزارنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ مری میں صرف چار ہزار گاڑیوں کی پارکنگ کے لئے گنجائش سے ظاہر کہ جب ایک لاکھ کاریں ایک چھوٹے سے پہاڑی سیاحتی مرکز میں آ گھسیں گی تو ٹریفک نظام درہم برہم تو ہو گا۔ ٹریفک پولیس کی تمامتر کوششوں کے باوجود کاروں کا سیلاب مری کی طرف بڑھتا رہا۔ کسی نے ٹریفک پولیس کو ہدایت کی پرواہ نہیں کی‘ نتیجہ یہ تھا کہ لوگ گھنٹوںسڑکوں پر گاڑیوں میں بیٹھے رہے۔ عجیب بات ہے کہ ہمارے لوگوں کے پاس سڑکوں پر ضائع کرنے کے لئے اتنا وقت کیسے نکل آتا ہے؟
اس صورت حال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مری میں موجود ہوٹل والے عید کے دنوں میں ایک اور دو ہزار روپے کرائے والے کمرے کے دس ہزار روپے سے بھی زیادہ وصول کرتے ہیں۔ ریستوران کے مالکان کھانے پینے کی اشیاء کی من چاہی قیمت وصول کرتے ہیں۔ اس کی مقامی آبادی مری کے گرمیوں کے سیزن میں ایک عذاب سے گزرتی ہے۔ مری کے دیہی علاقوں میں سے کسی مریض کو راولپنڈی یا مری کے ہسپتال میں پہنچانا ہو تو یہ ناممکن ہو جاتا ہے‘ کئی مریض تو راستے میں ہی دم توڑ دیتے ہیں۔
مری ایک پرکشش سیاحتی مرکز تو ہے لیکن اس کے ٹریفک کے مسائل جن میں پارکنگ سرفہرست ہے ‘ کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ مری پر سیاحوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کو کم کرنے کے لئے پنجاب حکومت کومری کے گردونواح میں متبادل سیاحتی مراکز تعمیر کرنا ہوں گے۔ نیو مری کا منصوبہ شروع کیا گیا لیکن یہ صرف ایک چیئرلفٹ کی تنصیب تک محدود رہا۔ مری کو سیاحوں کے بے ہنگم سیلاب سے بچانے کے لئے نیو مری کے منصوبہ پر کام کرنا ہو گا۔ پیر سوہاوہ کو اگر ترقی دے کر پکنک سپاٹ بنایا جائے یا پھر حکومت نے سیاحوں کے لئے مری کے گردونواح میں نئے سیاحتی مراکز تلاش نہ کئے تو موسم گرما میں اہل مری کے لئے سیاحوں کے پیدا کردہ مسائل لوگوں کی زندگی اجیرن کر دیں گے۔ پنجاب کی موجودہ حکومت نے مری میں پارکنگ کے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے کئی منصوبے شروع کئے لیکن یہ منصوبے پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکے۔ وزیراعظم نواز شریف کا مری میں اپنا گھر ہے وہ ایک عرصہ سے مری میں وقت گزارتے چلے آ رہے ہیں۔ وزیراعظم خود بھی مری کے ٹریفک پارکنگ اور دوسرے مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی لیں تو مری کے باسی اور سیاح موجودہ اذیت ناک صورتحال سے نکل سکتے ہیں۔