پچھلے دنوں کراچی میں تخریب کاروں اور ان کے سرپرستوں کی پکڑ دھکڑ اور ایک ملزم کے بلاول ہاﺅس بھتہ کی رقوم پہنچانے کے اعتراف پر جناب آصف علی زرداری نے رینجرز اور چیف آف آرمی کی ذات کو حدفِ تنقید بنایا تھا۔ جس پر راقم نے زرداری صاحب کے آئندہ وزیراعظم بننے کے چانس کو مخدوش تحریر کیا تھا اور صاف بیان کیا تھا کہ ایجنسیوں اور فورسز کی اشیرباد کے بغیر ملک کا حکمران بننے کا اگر کوئی خواب دیکھتا ہے تو وہ صریح غلط فہمی میں ہے کیونکہ ایجنسی والوں کا کہنا ہے کہ 1970 کے الیکشن میں سیاست دانوں کو کھلی چھٹی دینے کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہو چکا ہے۔ بدیں وجہ الیکشن لڑنے والوں کے کردار وگفتار پر کڑی نظر رکھنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ 2008 میں آصف علی زرداری ایجنسیوں کی اشیرباد سے ہی صدر مملکت بنے تھے۔ قوت بازو اور پیپلز پارٹی کی قوت سے ہرگز نہیں بنے تھے۔ کسی معاہدے کے تحت ہی جیل سے انکی رہائی ہوئی تھی اور اسکے بعد وہ دوبئی چلے گئے تھے۔ دوبئی میں خفیہ والوں کی بے نظیر صاحبہ سے اور زرداری سے الگ الگ پوشیدہ طور پر ملاقاتیں جاری رہیں۔ 2005کے شروع میں جب زرداری صاحب خفیہ والوں سے کسی معاہدے کیلئے لاہور ائیرپورٹ پر اترے اور ایک دو روز کے بعد خاموشی سے اسلام آباد کسی بادشاہ گر کو ملنے آگئے۔ پھر چپکے سے واپس لاہور چلے گئے اور اسکے بعد واپس دوبئی روانہ ہو گئے۔ راقم کو مارچ 2005 میں پشاور بذریعہ روڈ جانے کا اتفاق ہوا تو دیکھا جی ٹی روڈ کے تمام پلوں کی چھوٹی دیواروں اور سڑک کی قریبی عمارتوں کی دیواروں پر وال چاکنگ کرائی گئی تھی جس کے الفاظ تھے ”چلو چلو لاہور چلو صدر پاکستان آصف علی زرداری کے استقبال کیلئے چلو“۔ راولپنڈی سے پشاور شہر کی دیواروں تک یہ وال چاکنگ دیکھ کر راقم مخمصے میں پڑ گیا کہ بیوی کے وزیراعظم ہوتے ہوئے اس کے سرتاج کس طرح صدر پاکستان بن جائیں گے لیکن بعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ وال چاکنگ بے مقصد نہیں کرائی گئی تھی۔ زرداری صاحب کسی ایسے ہی خفیہ معاہدہ کیلئے 2005 کے شروع میں دوبئی سے پاکستان آئے تھے۔
اب بلاول بھٹو پنجاب اور پاکستان کے دورہ پر عیدالفطر کے بعد بلاول ہاﺅس سے نکلنے والے ہیں۔ بلاول بھٹو پڑھا لکھا نوجوان ہے، ابھی سیاست کی مکروہ چالوں سے ناواقف ہے۔ وہ اپنے باپ زرداری سے سیاسی تربیت لینے سے بھی گریزاں ہے۔ ملک میں ایک سے ایک بڑھ کر سیاسی بازی گر بیٹھا ہے۔ خفیہ والوں سے کوئی ڈیل کرنے کا ابھی اس کو ڈھنگ نہیں۔ پیپلز پارٹی انتشار کا شکار ہے۔ ایسے حالات میں بلاول پیپلز پارٹی کو کس طرح الیکشن جیتنے کے قابل بنائے گا۔ کراچی میں 2014 میں بلاول کی منہ وکھالی کیلئے ایک بہت بڑے جلسہ کا اہتمام کیا گیا اور ایک طرح سے پیپلز پارٹی کے تمام صوبائی صدور اور معروف ارکان سے بلاول کے حق میں تقریریں کرائی گئیں۔ ان تقریروں کو بعض دانشوروں نے بلاول کیلئے حلف وفا داری کے الفاظ سے بھی یاد کیا مگر بلاول اپنی تقریر میں عوام الناس پر اور پیپلز پارٹی کے رہنماﺅں پر اپنا سکہ نہ جما سکا جسکے باعث خود زرداری صاحب بھی بلاول سے خوش ،نہیں نہ ہی پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہنما بلاول سے متاثر ہیں۔ اب کے دورہ پاکستان میں ہو سکتا ہے بلاول اپنی ساکھ قائم کرنے کی کوشش کرے۔ یہ دورہ اس کیلئے دودھاری تلوار کی مانند ہو گا کیونکہ یہ بھی ممکن ہے کہ بلاول کوئی اچھا امیج بلڈ (Image Build) نہ کر سکے۔ اگر ایسا ہو گیا تو پھر پیپلز پارٹی کا بکھرا ہوا شیرازہ سمیٹنا بہت مشکل ہو جائےگا۔
مریم نواز لاہور کے بہت معروف تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم کی جانب بھی اس کا خاصہ رجحان تھا۔ وہ راقم کی بیٹی کے ساتھ ماڈل ٹاﺅن لاہور میں مذہبی تعلیم کیلئے تعلیم نسواں کے جامعہ اشرفیہ کے ادارے میں قرآن پاک کا ترجمہ پڑھنے کیلئے زیر تعلیم رہی ہیں۔ مریم نواز ایک ذہین، جواں ہمت اور معاملہ فہم بی بی ہیں۔ سیاسی امور میں بھی ادراک رکھتی ہیں۔ جانے کیوں وہ ملک بھر میں جلسے اور کارنر میٹنگ نہیں کر رہیں۔ مریم نواز ن لیگ کی جانب سے وزیراعظم کی مضبوط امیدوار ہیں۔ بلاول کیساتھ مریم نواز کا مقابلہ نہایت سخت ہو گا۔
عوام الناس، سول بیورو کریسی اور فوجی بیوروکریسی کس کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالتی ہیں۔ بلاول کے یا مریم نواز کے یہ وقت ہی بتائے گا۔ مگر اس سے کسی کو انکار نہیں کہ بلاول کے سامنے فرہاد کی طرح کے سنگلاخ پہاڑ ہیں۔ اگرچہ بلاول کی پرورش بطور مستقبل کے وزیراعظم کے ہوئی ہے۔ اسکی تعلیم بھی پاکستان اور دنیا کے بہترین تعلیمی اداروں میں ہوئی لیکن بے نظیر کی بے وقت شہادت نے اسکے اندر کی صلاحیتوں کو دبا کر رکھ دیا ہے۔ زرداری صاحب سے بلاول ٹریننگ نہیں حاصل کر سکا۔ پھر آج کے زمانہ میں حفاظت اور پرٹوکول کے مسائل اس قدر گھمبیر ہو گئے ہیں کہ بغیر سیکورٹی کلیرنس کے کہیں آنا جانا بلاول بھٹو اور مریم نواز دونوں کیلئے ہی ناممکن ہے۔
مریم نواز کیلئے سیکورٹی کے مسائل اس قدر گھمبیر نہیں ہیں جتنے بلاول کیلئے ہیں۔ چنانچہ مریم نواز کا پلڑا بھاری رہنے کے کافی امکانات ہیں۔ نہ تو اس کو مسلم لیگ کے انتشار کا سامنا ہے نہ ہی اس سے پارٹی کے کارکنوں نے ایسی امیدیں باندھ رکھی ہیں جیسی بلاول بھٹو سے ہیں۔ لہٰذا خاموشی سے سیاسی سرگرمیوں میں مشغول رہنا بھی مریم نواز کے حق میں جائےگا۔
ویسے خود میاں نواز شریف بھی ابھی ینگ ہیں۔ بشرط زندگی اور صحت وہ خود بھی الیکشن مہم چلانے کے قابل ہیں اور عنقا صاحب انکے سر پر بھی بیٹھ سکتے ہیں۔ بس ہم تو صرف یہ کہہ سکتے ہیں مسلم لیگ ن زندہ باد: پیپلز پارٹی زندہ باد۔ہم دعا گو ہیں کوئی ایسا آئے جو ملکی اور قومی مسائل نیک نیتی سے حل کرنے کی کوشش کرے۔