آپریشن ضرب عضب کے دو سال مکمل ہوگئے اور اِس دوران پاکستان کے عسکری اداروں کو بے شمار کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں۔ کوئی شبہ نہیں کہ اِن کامیابیوں کے باعث دہشتگردوں میں اب وہ پہلے جیسا دم خم باقی نہیں رہا اور ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے در پے دہشت گرد پہلے کے مقابلے میں اب بہت کمزور ہوچکے ہیں، جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران پہلے سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے پانچ سال قبل اغوا ہونے والے بیٹے شہباز تاثیر کو بازیاب کرایا گیا اور پھر تین سال قبل ملتان سے اغوا کیے جانیوالے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کو بھی افغانستان سے بازیاب کرالیا گیا۔ اِن دو اہم ’’بازیابیوں‘‘ کو دراصل آپریشن ضرب عضب کی دو اہم کامیابیاں ہی قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ یہ کامیابیاں اِس امر کی بھی غماض ہیں کہ دہشتگردوں کی گرفت کمزور پڑ رہی ہے اور معاملات اُنکے ہاتھ سے نکلتے چلے جارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح اپنے انجام سے دوچار ایک بجھتی ہوئی شمع بہت زیادہ بڑھکنے لگتی ہے تو بالکل اُسی طرح دہشتگرد بھی اپنے انجام کے قریب پہنچ کر حواس باختہ نظر آتے ہیں۔ اِسی حواس باختگی میں دہشتگردوں کی جانب سے ایسی کارروائیاں بھی سامنے آنے لگیں، جن کا کوئی مقصد یا کوئی منہ سر اور پیر سمجھ میں ہی نہیں آتا۔ یعنی اب ایسے لوگوں کو نشانہ بنایا جانے لگا تھا، جن کا دہشتگردی کیخلاف جنگ سے کچھ لینا دینا بھی نہ تھا۔
وفاقی حکومت، فوج اور رینجرز کی کوششوں سے عروس البلاد کراچی کو دوبارہ امن کا گہوارہ بنانے کیلئے جو سفر شروع ہوا تھا، ابھی اس کا پہلا سنگ میل ہی عبور ہوا تھا کہ کراچی میں ایک بار پھر ٹارگٹ کلنگ کے واقعات رونما ہونا شروع ہوگئے۔کراچی میں گزشتہ مہینے جون میں رونما ہونیوالے بہت سے غیر معمولی واقعات کی وجہ سے حالات تیزی سے پلٹا کھاتے محسوس ہونے لگے تھے ۔ مثال کے طور پر 22 جون کو معروف قوال امجد فرید صابری کو کراچی میں انکی گاڑی روک کر سرعام گولیاں مارکر قتل کردیا گیا تو اِس واقعہ کے بعد کراچی میں خوف و ہراس پھیلنا ایک یقینی امر تھا، لیکن امجد فرید صابری کے جنازے میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کرکے پیغام دیا کہ وہ اب دہشت زدہ ہونیوالے نہیں ہیں۔امجد فرید صابری کے بے رحمانہ قتل کا واقعہ وکلاء اور ایوان عدل والوںکیلئے اُس جاں گسل واقعہ کے ایک روز بعد ہی پیش آیا تھا، جس میں چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ سید سجاد علی شاہ کے بیٹے اویس شاہ کو کراچی کے متمول علاقے کلفٹن میں واقع ایک سپر سٹور کے باہر سے اغوا کرلیا گیا تھا۔ اغوا کے اٹھائیس روز بعد دہشتگرد اویس شاہ کو کراچی سے افغانستان منتقل کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ ڈی آئی خان میں ٹانک کے قریب سیکیورٹی اداروں کو مخبری ہوگئی اوراویس شاہ کو پاک فوج کی ایک کارروائی کے دوران خیبر پختونخوا کے ضلع ٹانک میں اغوا کاروں کے قبضے سے چھڑالیا گیا، اس کارروائی میں تین اغوا کار بھی مارے گئے۔ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کے مطابق ’’اویس شاہ کی ٹانک کے علاقے میں موجودگی کے تکنیکی شواہد کئی دنوں سے مل رہے تھے،پیر کی شب جب مفتی محمود چوک پر قائم ناکے پر فوج کے جوانوں نے اغواکاروں کی گاڑی روکنے کی کوشش کی تو ڈرائیور نے گاڑی بھگا دی، جس پر فوج کے نشانہ باز نے ڈرائیور کو گولی مار کر ہلاک کیا تو اس میں سے مزید دو اغوکاروں نے بھی اُتر کر فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہونے کی کوشش کی تاہم اُنہیں بھی ہلاک کر دیا گیا، اس گاڑی کی تلاشی لی گئی تو اس میں مغوی اویس شاہ کو منہ پر ٹیپ لگا کر اور برقع پہنا کر بٹھایا گیا تھا۔ اغوا کار اویس شاہ کو مغربی سرحد سے افغانستان لے جانا چاہتے تھے‘‘۔ اویس شاہ کو بازیابی کے بعد پہلے فوجی کیمپ لے جایا گیا اور پھر وہاں سے خصوصی طیارے کے ذریعے کراچی میں انکے گھر پہنچا دیا گیا۔ بیٹے کی بازیابی کے بعد جسٹس سجاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ ’’اویس شاہ کی بازیابی حکومت کی بھرپور کوششوں کا نتیجہ ہے اور پاک فوج حکومت کا ہی حصہ ہے، کوئی الگ نہیں ہے‘‘۔آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں سے کون خوفزدہ ہے؟ اسکے بارے میں اب سب کو معلوم ہے کہ پاکستان میں امن قائم ہونے سے صرف وہی خوفزدہ ہیں جنہوں نے پاکستان کے اندر دہشتگردی، افراتفری، بدامنی اور لاقانونیت کا بیج بوکر سمجھا تھا کہ وہ اِس کی چھاؤں میں اپنے اپنے ملکوں میں بھی آرام اور چین کی نیند سوسکیں گے۔ دہشتگردوں کے ایسے سرپرستوں میں کچھ مشرق میں ہیں جو سچائی کا سورج طلوع ہونے سے ڈرتے ہیں اور کچھ مغرب میں جو جھوٹ کا سورج افق کے اُس پار ڈوب جانے سے خوفزدہ ہیں۔ایسے لوگوں سے جب اپنے گھر نہیں سنبھالے جاتے تو دوسروں کے گھروں میں آگ لگاکر خوش ہوتے ہیں۔ مقبوضہ جموں کشمیر یقینا بھارتیوں کا ’’گھر‘‘ ہے نہ ہی کسی صورت اُن کا اٹوٹ انگ ہے، لیکن مقبوضہ کشمیر میںکشمیری حریت پسند نوجوان برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد سے عوامی احتجاج میں جس بلند سطح کی شدت دکھائی دیتی ہے، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کشمیر بھارت کی مٹھی سے اب خشک ریت کی طرح ذرہ ذرہ نکل رہا ہے ۔ کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے پر گزشتہ روز پاکستان میں وزیراعظم نواز شریف کی اپیل پر بھارت کیخلاف جس بھرپور انداز سے یوم سیاہ منایا گیا، اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ بھارت اب مزید زیادہ عرصہ تک کشمیریوں کو اپنا غلام بناکر نہیں رکھ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے کشمیریوں کی غیر مشروط سیاسی و اخلاقی حمایت سے خوفزدہ ہوکر ’’را‘‘ نے ایک دفعہ پھر پاکستان کے اندر آگ لگانے کی کوشش کی لیکن اویس شاہ کی بازیابی سے ناصرف اُس آگ کو ٹھنڈا کرنے میں بہت مدد ملے گی بلکہ ’’را‘‘ اور اسکے ایجنٹوں کو اب اپنی ہی آگ میں جلنا ہوگا۔باقی آج آزاد کشمیر میں ہونیوالے قانون ساز اسمبلی کے انتخابات سے ایک بار پھر ثابت ہوجائیگا کشمیر صرف کشمیریوں کا ہے اور بلاشبہ کشمیری پاکستان کے ساتھ ہیں، کیونکہ بھارت کے زیر قبضہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جب جب جعلی انتخابات ہوئے تو ناصرف یہ کہ ٹرن آؤٹ شرمناک حد تک کم رہا بلکہ کشمیریوں نے انتخابات میں دلچسپی ہی ظاہر نہ کی، لیکن آزاد کشمیر میں تسلسل سے ہونے والے انتخابات میں کشمیری عوام ناصرف مکمل طور پر ’’اِن‘‘ ہوتے ہیں بلکہ پولنگ کے روز پاکستان کے ساتھ ایک طرح کا اظہار یکجہتی کرکے یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے، جسے کراچی کو بدامنی کی بھٹی میں جھونک کر پاکستان سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔قارئین کرام!!امجد فرید صابری کا قتل اور اویس شاہ کا اغوا محض قتل اور اغوا کی عام وارداتیں نہ تھیں، بلکہ یہ عوام کی نظروں میں آپریشن ضرب عضب کے کامیابی کے تاثر اور مجرموں کیلئے اِس آپریشن کے اثرات پر اثر انداز ہونے کی ایک مذموم کوشش تھی، لیکن جس تندہی سے مسلسل جدوجہد کرتے ہوئے حکومت اور سیکیورٹی اداروں نے اویس شاہ کو بازیاب کرایا ہے، وہ یقینا قابل ستائش ہے کیونکہ یہ محض عام سا اغوا نہیں تھا بلکہ دہشتگردوں نے پاکستانیوں کا ملک کو پرامن، خوشحال، فلاحی اور ترقی یافتہ ملک بنانے کا خواب ’’اغوا‘‘ کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن صد شکر کہ قوم کی دعاؤں سے اُس خواب کو بازیاب کرالیا گیا !